18؍ستمبر 1878
*اپنے بے باک لہجے کے لئے معروف ، داغؔ دہلوی کے شاگرد، تاج الشعراء ” حضرتِ نوحؔ ناروی صاحب “ کا یومِ ولادت…*
*نوحؔ ناروی* کا نام *محمّد نوح* تھا ۔ *نوحؔ* تخلص کرتے تھے ۔ *نوحؔ ناروی* کی پیدائش *١٨؍ستمبر ١٨٧٨ء* کو *سلون* تحصیل کے *بھوانی پور گاؤں، ضلع رائے بریلی (اترپردیش)* میں ہوئی ۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی اس کے بعد *میر نجف علی* سے فارسی ، عربی کا درس لیا اور ان زبانوں میں کمال حاصل کیا ۔ انگریزی زبان سے بھی واقفیت حاصل کی
*نوحؔ* نے اپنی شاعری میں زبان اور موضوع کا وہی شکوہ اور بانکپن رکھنے کی کوشش کی جو *داغؔ* کا خاصہ تھا۔ ان کی شاعری عشق سے جڑے موضوعات کے ایک نئے علاقے کی سیر کراتی ہے۔
*نوحؔ ناروی* اپنی زود گوئی ، *داغ کی شاگردی* اور داغ کی وفات کے بعد ان کی *جانشینی* کیلئے بہت مشہور ہوئے ۔ نوح ان شاعروں میں سے ہیں جنہوں نے اپنے تخلص کو اپنی شاعری کی صورت گری میں بہت جگہ دی ۔ ان کے مجموعوں کے نام دیکھئے ۔
*سفینہِ نوح ، طوفانِ نوح ، اعجازِ نوح* ، وغیرہ ۔ نوح کی شاعری میں جگہ جگہ طوفان اور اس کے متعلقات کا ذکر بھی ملتا ہے ۔
*نوحؔ ناروی، ١٠؍اکتوبر ١٩٦٢ء* کو مالک حقیقی سے جا ملے.
🌹✨ *_پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ_*
🌹 *فصیح العصر حضرتِ نوحؔ ناروی صاحب کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…* 🌹
ادا آئی جفا آئی غرور آیا حجاب آیا
ہزاروں آفتیں لے کر حسینوں پر شباب آیا
—
*بھری محفل میں ان کو چھیڑنے کی کیا ضرورت تھی*
*جنابِ نوحؔ تم سا بھی نہ کوئی بے ادب ہوگا*
—
دل اپنا کہیں ٹھہرے تو ہم بھی کہیں ٹھہریں
اس کوچے میں آ رہنا اس کوچے میں جا رہنا
—
کعبہ ہو دیر ہو دونوں میں ہے جلوہ اس کا
غور سے دیکھے اگر دیکھنے والا اس کا
—
لیلیٰ ہے نہ مجنوں ہے نہ شیریں ہے نہ فرہاد
اب رہ گئے ہیں عاشق و معشوق میں ہم آپ
—
*مجھ کو خیال ابروئے خمدار ہو گیا*
*خنجر ترا گلے کا مرے ہار ہو گیا*
—
پامال ہو کے بھی نہ اٹھا کوئے یار سے
میں اس گلی میں سایۂ دیوار ہو گیا
—
*ہر طلب گار کو محنت کا صلہ ملتا ہے*
*بت ہیں کیا چیز کہ ڈھونڈھے سے خدا ملتا ہے*
—
سنتے رہے ہیں آپ کے اوصاف سب سے ہم
ملنے کا آپ سے کبھی موقع نہیں ملا
—
*بطورِ یادگار زہد مے خانے میں رکھ دینا*
*مری ٹوٹی ہوئی توبہ کو پیمانے میں رکھ دینا*
—
آج آئیں گے کل آئیں گے کل آئیں گے آج آئیں گے
مدت سے یہی وہ کہتے ہیں مدت سے یہی ہم سنتے ہیں
—
دل کے دو حصے جو کر ڈالے تھے حسن و عشق نے
ایک صحرا بن گیا اور ایک گلشن ہو گیا
—
نہ ملو کھل کے تو چوری کی ملاقات رہے
ہم بلائیں گے تمہیں رات گئے رات رہے
—
کہیں نہ ان کی نظر سے نظر کسی کی لڑے
وہ اس لحاظ سے آنکھیں جھکائے بیٹھے ہیں
—
اشکوں کے ٹپکنے پر تصدیق ہوئی اس کی
بے شک وہ نہیں اٹھتے آنکھوں سے جو گرتے ہیں
—
ان سے سب حال دغاباز کہے دیتے ہیں
میرے ہم راز مرا راز کہے دیتے ہیں
—
محفل میں تیری آ کے یہ بے آبرو ہوئے
پہلے تھے آپ آپ سے تم تم سے تو ہوئے
—
یہ میرے پاس جو چپ چاپ آئے بیٹھے ہیں
ہزار فتنۂ محشر اٹھائے بیٹھے ہیں
—
ہمیں اصرار ملنے پر تمہیں انکار ملنے سے
نہ تم مانو نہ ہم مانیں نہ یہ کم ہو نہ وہ کم ہو
—
تاثیر کے دو حصے اگر ہوں تو مزا ہے
اک میری فغاں کو ملے اک تیری ادا کو
—
اللہ رے ان کے حسن کی معجز نمائیاں
جس بام پر وہ آئیں وہی کوہِ طور ہو
—
*کہیں تمہیں بھی ڈبو دے نہ بحر الفت میں*
*بہت ہے نوحؔ کا طوفانِ چشم تر گستاخ*
—
ہم سے یہ کہہ کے وہ حال شبِ غم پوچھتے ہیں
کیا بتاؤگے نہ تم اب بھی کہ ہم پوچھتے ہیں
—
*بھیج کر خط انہیں بلوائیں محبانِ سخن*
*کچھ بھی محفل میں نہیں نوحؔ جو محفل میں نہیں*
—
کیوں آپ کو خلوت میں لڑائی کی پڑی ہے
ملنے کی گھڑی ہے کہ یہ لڑنے کی گھڑی ہے
—
*نوحؔ ہم کو نظر آیا نہ یہاں بت بھی کوئی*
*لوگ کہتے تھے کہ کعبہ میں خدا ملتا ہے*
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
🌹 *حضرتِ نوحؔ ناروی*🌹
*انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ*