پہلا نشہ، پہلا خمار نجمہ ثاقب

زندگی عجیب و غریب رنگوں میں رنگی ہوئی ہے۔ ہر رنگ اپنی کہانی لیے ہوئے ہے اور ہر کہانی اپنے کئی رنگ چھوڑ جاتی ہے۔ زندگی طرح طرح سے بیتتی ہے۔ کچھ باتیں یاد رہ جاتی ہیں، کچھ بھول جاتی ہیں ۔ لیکن ایک بات کبھی نہیں بھولتی اور وہ ہے ہر چیز کا پہلا تجربہ۔ یہ تجربہ دل پر وہ ایسی چھاپ لگا دیتا ہے کہ ساری زندگی جب بھی اس بات کا خیال آتا ہے، پہلی تصویر ذہن کے پردے پر وہ بنتی ہے جب پہلی بار وہ بات ہوئی تھی۔

انسان پہلی پہلی بار کچھ دیکھتا ہے، کچھ چھوتا ہے، کچھ سنتا ہے ، کچھ سونگھتا ہے اور یہ پہلی بار کا تجربہ ساری زندگی اس کے ساتھ رہتا ہے۔ ذائقہ بھی ایسا ہی تجربہ جو پہلے پیار، پہلی محبت، پہلے نشے اور پہلے لمس کی طرح ساری زندگی آپ کے ساتھ رہتا ہے۔ جب کبھی کوئی اس غذا کا نام لیتا ہے تو زبان میں وہ ذائقہ محسوس ہوتا ہے جس سے پہلی بار شناسائی ہوئی تھی۔ ذائقے کا یہ سفر ساری زندگی جاری رہتا ہے۔

اللہ جانے آج کیوں مجھے وہ پہلے پہلے ذائقے یاد آئے ۔ یہ سب یاد آیا تو خود بخود یاد آتا چلا گیا کہ پہلی بار کون سی چیز اور کہاں چکھی تھی اور سب سے مزیدار ذائقہ کہاں ملا۔ ذائقے کے اس سفر کی راہوں سے آپ بھی گذرے ہونگے۔ شاید کسی راہ پر کسی موڑ پر، کسی پگڈنڈی پر آپ بھی چلے ہوں کہ اس میں سے کچھ تو خالصتا ذاتی تجربے ہیں تو کچھ جگ بیتی بھی ہے۔

اور یہ سفر مجھے اپنے بچپن میں لے جاتا ہے جب یہ دنیا بہت محدود تھی۔ وجہ شاید یہ تھی کہ زندگی بہت سادہ تھی، یا شاید ہماری اس سے زیادہ کی حیثیت ہی نہیں تھی، یا شاید اس زمانے کا ماحول ہی ایسا تھا۔ بات یہ ہے کہ اس وقت گھروں سے باہر کھانے کا یا گھر سے باہر کی چیزیں کھانے کا رواج ایسا نہیں تھا جیسا آج ہے۔ اب تو باہر کھانا یا باہر سے کھانا منگوانا فیشن یا شوق سے بڑھ کر ضرورت بھی بن چکا ہے۔

جہاں تک مجھ یاد ہے گھروں میں کھانے بھی چند ایک ہی پکتے تھے اور ہم اسے ہنسی خوشی کھا لیتے تھے۔ آج کی طرح نہیں کہ گھر میں ٹینڈے پکے ہیں تو بچے نے باہر سے برگر کھالیا۔ ہمارے گھر میں زیادہ تر دالیں اور سبزیاں پکتی تھیں۔ یہ اور بات ہے کہ انہیں طرح طرح سے پکایا جاتا تھا جیسے کبھی بیگن یا آلو کی سبزی یا ترکاری پکا لی تو کبھی اسی بیگن یا آلو کا بھرتا بنادیا یا پھر آلو کی بھجیا پکالی۔ کبھی یہی آلو اور دال روٹی کے اندر چلے جاتے اور آلو والے پراٹھے اور دال بھری روٹی یا بیسنی روٹی، پودینہ اور ہری مرچ کی چٹنی کے ساتھ چٹخارے لے کر کھاتے۔ اللہ بخشے امی کے انتقال کے بعد دال بھری روٹی تو خواب و خیال ہی ہوئی کہ اس میں لگتی ہے محنت زیادہ اور آج کل بیگمات کے پاس اتنا وقت کہاں۔

گوشت اور قیمہ کبھی کبھار ہی، بلکہ کسی مہمان کی آمد پر ہی پکتا تھا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے میرے بچپن میں مرغی ( یعنی چکن ) بہت ہی خاص دعوت میں پکتی تھی۔ چکن کا رواج ان دنوں بالکل نہیں تھا سوائے چکن تکے یا تکہ بوٹی کے کے جو صرف امراء اور شرابیوں کا شوق تھا۔ ہمیں نہ شراب نصیب تھی نہ کباب۔

جب تک امی زندہ رہیں اور میں ان کے پاس رہا ، دو ، ترتراتے پراٹھے اور چائے کے علاوہ ہمارا ناشتہ شاذ ہی کچھ اور ہوتا یا پھر کسی اتوار کو ذرا ہٹ کے ناشتہ ہوتا۔ کبھی تو گھر میں امی کی ہی کسی اور ترکیب سے بنی چیز جیسے “ مال پورے ، یا مالپوے، یا پھر دودھ ، انڈے میں تلی ہوئی ڈبل روٹی جسے آج کی زبان میں فرنچ ٹوسٹ کہتے ہیں، یا ایسی کوئی اور یا “ پاپے یا ڈبل روٹی وغیرہ کا ناشتہ ہوتا۔ ڈبل روٹی کے ساتھ جام اور مکھن کا رواج ہم غریبوں کے ہاں نہیں تھا۔ مکھن اور انڈا عموما کسی بیماری کی صورت میں ملتا تھا۔

کبھی کبھار، چھٹے چھماہے اور جب کبھی گھر میں چار پیسے زیادہ ہوتے، یا طبیعت عیاشی پر آمادہ ہوتی، یا امی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہوتی تو بازار سے حلوہ پوری، یا نہاری ،منگوائی جاتی۔ اور یہیں سے میری اس کہانی کا آغاز ہوتا ہے۔

بہار کالونی میں ہمارے گھر سے کچھ دور ایک امرتسر کے کشمیری النسل مہاجر کا تنور تھا جو صبح سویرے قلچے اور باقر خانی لگاتے۔ اب یہ یاد نہیں کہ یہ صرف چھٹی والے دن ہوتا یا روز کا معمول تھا کہ ہم تو صرف چھٹی والے دن ہی وہاں جاتے تھے۔ اس جیسی باقر خانی تو شاید بعد میں بھی کھائی ہو لیکن اس کے قلچے کا سواد مجھے آج تک کہیں اور نہیں ملا۔ خمیری آٹے والے، ہلکے سے نمکین، تل چھڑکے ہوئے گرما گرم ، پھولے ہوئے ان قلچوں کی بات ہی کچھ اور تھی۔ یہاں دوبئی میں ایک ہندوستانی ریسٹورنٹ کی چین ہے جس کا نام کلچہ کنگ Kulcha King ہے لیکن یقین مانئیے یہ ہمارے بہار کالونی والے قلچوں کے پاؤں کی دھول بھی نہیں۔ وہ قلچے ہم چائے میں ڈبو کر کھاتے تھے۔ اب ان کی صرف یاد ہی رہ گئی ہے۔

اسی بہار کالونی میں سہ پہر کو ایک نانبائی سائیکل پر اپنی چیزیں بیچنے لاتا۔ ہمیں اس وقت دوپہر کی چائے کی عادت نہیں لگائی گئی تھی۔ امی اور دادی البتہ چائے پیتی تھیں۔ لیکن جب وہ نانبائی آواز لگاتا تو ہم امی سے پیسے لے کر دوڑے جاتے اور اس کی سوط خاص چیزوں میں سے ایک ضرور زخریدتے اور وہ دو چیزیں تھیں علیگڑھ کے پاپے جنہیں علیگڑھ کے بسکٹ بھی کہتے ہیں اور شاید علیگڑھ والے “مٹری” کہتے ہیں اور دوسرے اس کی نان خطائی تھی۔ آج تو شاید لوگوں کو علیگڑھ کے پاپے سمجھانا بھی ممکن نہ ہو۔ یہی نانبائی نمکین زیرہ والے بسکٹ اور ڈبل روٹیاں بھی لاتا تھا جن میں ایک قلچے کے سائز کی گول ڈبل روٹی ہوتی تھی جسے نان کہتے تھے۔ اب مجھے وہ نان نظر نہیں آتے۔

ہمارے بہار کالونی میں تو نہیں لیکن کبھی کبھار جب ہم شہر میں یعنی سوسائٹی وغیرہ میں اپنے رشتہ داروں کے ہاں آتے تو یہاں صبح سویرے بی پی والوں کی گاڑی آتی۔ بی پی کا بن اور مسکہ بن کا جوڑ دنیا میں آج تک پیدا نہیں ہوا۔ اور بی پی کی ڈبل روٹی والا ذائقہ بھی مجھے کسی اور ڈبل روٹی میں نہیں ملا۔ بی پی میرے بچپن کی یادوں کا اٹوٹ نقش ہے۔ سب سے پہلے چاکلیٹ اور ٹافی سے بھی بی پی کے ذریعے ہی شناسائی ہوئی اور اس وقت تک ہمارے نزدیک دنیا کا سب سے بہترین چاکلیٹ بی پی کا ہی ہوتا تھا۔

اور اسی بی پی کے ٹرک سے پاکولا کے ٹرک بھی یاد آئے۔ اس وقت پیپسی وغیرہ پاکستان میں متعارف نہیں ہوئے تھے۔ کوکا کوکا، سیون آپ اور فانٹا بھی کچھ عرصہ بعد آئے تھے، پاکولا اورنج، لیمن، آیسکریم سوڈا، سوڈا اور جنجر ہی ہمارے ہاں کولڈ ڈرنک کہلاتے تھے۔ دکانوں اور ہوٹلوں سے بوتلیں لاتے وقت انہیں کھولنے کی چابی لانے کی خاص تاکید کی جاتی، دوسری صورت میں دروازوں کی چٹخنیوں وغیرہ سے یہ کام لیا جاتا۔ اور ہاں بوتلوں کی رقم پیشگی رکھی جاتی اور خالی بوتلیں واپس کرنے پر بقیہ پیسے واپس ملتا۔ لفظ “ ڈیپازٹ” ہم نے پاکولا کی بوتلوں سے ہی سیکھا تھا۔

غربت کے انہی دنوں میں جب ہماری اوقات گلی میں ٹن ٹن گھنٹی بجاتے گولے گنڈے، ملائی قلفی یا سیکرین والی آئس کینڈی کی تھی جو دو پیسے سے دوآنے تک میں مل جاتی تھیں ، ایک عیاشی کا تعارف کراچی والوں کی زندگی میں ہوا اور وہ تھی “ ایم ایف آئس کریم “۔ بعد میں تو بہت ساری ملکی اور غیرملکی آئس کریم آئیں لیکن ایم ایف کراچی والوں کا آئس کریم سے پہلا پیار تھا جسے میری نسل کے لوگ کبھی نہیں بھول سکتے۔ اس کی کم از کم ،چوک بار، چار آنے کی تھی جو ہماری اوقات سے بہت زیادہ تھی لیکن ہم بچوں کا دل رکھنے کے لیے امی چار آنوں کی قربانی دیتیں اور چھری سے اس چوک بار کے چار برابر حصے کرکے ہمیں پلیٹوں میں دیتیں جنہیں ہم برضا و رغبت کھاتے۔ شکر ہے پانچویں بہن اس وقت پیدا نہیں ہوئی تھی ورنہ ہمارا حصہ اور کم ہوجاتا۔ امی کو کبھی آئسکریم کھاتے نہیں دیکھا نہ کبھی ہم نے انہیں اپنی آئسکریم میں شریک ہونے کی دعوت دی۔ ایم ایف والے آئسکریم کے ساتھ پوٹاٹو چپس بھی بیچتے تھے جنہیں ان دنوں ہم “ ویفرز” کہتے تھے۔ آج بھی وہ ویفرز ہی ہیں مگر ہماری اوقات کے ساتھ زبان بھی بدل گئی ہے۔ میری یاد داشت کے مطابق یہ پہلے چپس تھے جو ہم نے دیکھے تھے۔ شاید شہر کے اچھے ریسٹورانوں اور دکانوں میں چپس ملتے ہوں مگر یہ عام آدمی کے چونچلے نہیں تھے۔

بہار کالونی کی دنیا ہماری دنیا تھا لیکن اپنے “ امیر” رشتہ داروں کی بدولت ہمیں اس دنیا کی جھلکیاں بھی دیکھنے مل جاتیں جہاں ہر روز ، روز عید اور ہر شب ، شب برات ہوتی تھی۔ چھٹیوں میں یا کسی شادی بیاہ میں یا کسی غمی اور سوگ میں ہم سوسائٹیز کے علاقے میں اپنی پھوپھیوں کے ہاں آتے اور کئی کئی دن رہتے۔

کوکن سوسائٹی کے پڑوس میں دہلی مرکنٹائل سوسائٹی ہے بلکہ کہیں کہیں یہ آپس میں کچھ اس طرح گندھی مندھی ہیں کہ ایک گلی کوکن کی ہے تو اس کے ساتھ کی گلی دہلی والوں کی اور اگلی گلی پھر کوکن سوسائٹی کی ہے۔

ہم لڑکوں کی جیب میں کہیں سے اگر آتھ آنہ یا ایک روپیہ آجاتا، جو کہ عید بقر عید پر ہی ہوتا، یا کبھی ہمارے کسی بڑے کی طبیعت سخاوت پر آمادہ ہوتی، یا اچانک کوئی مہمان وارد ہوجاتا تو ہماری دوڑ دہلی سوسائٹی میں ریاض مسجد کی طرف لگتی۔ لیکن ہم اس علاقے کو ڈی ایم ایس یا ریاض مسجد نہیں بلکہ “ شمسی ہاؤس “ کے نام سے جانتے جہاں “ بھائی غفار” کی کبابوں کی دکان تھی۔ بھائی غفار کا نام بھی ہمیں بہت بعد میں معلوم ہوا جب کالج آنے کے بعد میرے بہت سے دوست وہ بنے جو دہلی مرکنٹائل سوسائٹی میں رہتے تھے ورنہ ہم اسے ہمیشہ “ شمسی ہاؤس کے کباب “ کہتے تھے ( شمسی ہاؤس والوں غریب کو اس کی خبر بھی نہ ہوگی)۔

ریاض مسجد کی مشرقی سیڑھیوں کی دائیں جانب ایک چھوٹی سی دکان تھی جس کے کاؤنٹر پر بھائی غفار کباب بھونتے رہتے۔ کاؤنٹر کے پیچھے ایک چھوٹی سی بنچ تھی جس پر بیٹھ کر ہم بھائی غفار کے “ آتشیں” کباب کھاتے اور سی سی کرتے اور پانی پیتے رہتے۔ بھائی غفار شاید کبابوں میں “ گن پاؤڈر “ یعنی بارود ڈالتے تھے۔ بہت بعد میں ہماری برادری کے بہت متمول اور مخیر شخصیت جناب ایم ایم بخشی کے ہاں “ بندو خان” کے کباب بھی پہلی مرتبہ کھائے لیکن وہ بات کہاں مولوی مدن کی۔ بھائی غفار کی دکان جو ایک بنچ پر مشتمل تھی آج ریاض مسجد کی پوری گلی پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس کی ایک اتنی ہی بڑی برانچ بلوچ کالونی میں بھی ہے جہاں دہلی سوداگران کی بڑی تعداد آباد ہوگئی ہے۔ ان کی شاید اور بھی شاخیں ہوں۔ اب کراچی میں وحید کے کباب ، میرٹھ اور دوسرے کباب بھی مشہور ہوگئے ہیں لیکن جنہوں نے بھائی غفار کے کباب کھائے ہیں وہی جانتے ہیں کہ اصلی گولا کباب کسے کہتے ہیں۔
اور ہاں پہلی بار جب بھائی غفار کے ہاں کباب کھائے تو وہ “ کھیری” کے تکے تھے۔ اس کے بعد پھر کبھی کھیری کے تکے نہ کھائے نہ ان کا نام سنا۔

اک کارواں کے ساتھ گئی، کارواں کی دھول

بھائی غفار کے کباب ایک ذرا بڑی عیاشی تھے۔ اس سے کم پیسے یعنی چار آنے جب میسر آجاتے جو کہ اکثر آجاتے تو ہم بہادر آباد پہنچ جاتے جہاں کے آلو چھولے، دہی بڑے، چاٹ وغیرہ ہمارے منتظر ہوتے۔ کراچی میں اور بھی کئی جگہ چاٹ چھولے بنتے تھے، خاص کر کیپیٹل سینیما والی گلی میں اور طارق روڈ پر۔ اور بھی علاقوں میں بنتے ہوں گے۔ لیکن بہادر آباد کے ان چاٹ چھولوں کی سب سے بڑی خصوصیت ان کی صفائی تھی اور ذائقے کے ساتھ صفائی کا امتزاج کم از کم کراچی میں ممکن نہیں۔

کیپیٹل سینیما سے یاد آیا کہ اس گلی میں داخل ہوتی ہے بھاپ اڑتی، سبز چائے کی خوشبو کی لپٹیں مشام جاں کو معطر کر دیتیں، کیفے گلوریا کی چائے دور سے سی ہی دعوت دیتی کے اس گلی میں آئے ہو تو مرضی سے جا نہیں سکتے۔ دوچار گھڑی مجھے بھی پی کر دیکھو۔

اسی گلی سےآگے کسی نکڑ پر “ نمکو” کی دکان تھی( شاید اب بھی ہے ) جسے دنیا جانتی ہے لیکن شاید کم لوگوں کو اسی گلی سے آگے مین روڈ پر، پارسی آتشکدۂ والی گلی میں “ بھیل پوری “ کی دکان یاد ہو جو اس وقت شاید کراچی کی واحد بھیل پوری کی دکان تھی اور کراچی میں سوائے ممبئی والوں اور میمنوں اور بوہریوں کے کوئی بھیل پوری کا نام بھی نہیں جانتا تھا۔ اب دوبئی ، شارجہ میں بہت سی ہندوستانی ہوٹلوں میں بھیل پوری کھائی لیکن کراچی والی اس بھیل پوری کا جوڑ آج تک نہیں ملا۔ شاید پہلے نشے ، پہلی محبت کی طرح ۔

ذائقے ، چٹخارے اور خوشبو کے اس سفر میں ابھی تو میں یوں ہی ٹامک ٹوئیاں ماررہا ہوں ۔ ابھی اس جگہ تو پہنچا ہی نہیں جس کے بغیر ، گلستان کی بات رنگیں ہے نہ میخانے کا نام

جی ہاں ، ہوگا کوئی ایسا بھی کہ غالب کو نہ جانے۔ میرا مطلب ہے کہ کراچی میں رہا ہو اور برنس روڈ سے لذت کام و دہن سے محروم رہا ہے ۔ میرا دعوا ہے کے دنیا بھر کے فوڈ کورٹ اور کھانے پینے کے علاقے لے آؤ اور ہمارے برنس روڈ سے “ لڑوالو”۔

یہ نام نہاد فوڈ کورٹ اور فوڈ اسٹریٹس صفائی ستھرائی ، وسعت، سجاوٹ، خوبصورتی اور نظم و ضبط وغیرہ ہر چیز میں بہت، بلکہ بہت ہی زیادہ آگے ہوں گی۔ لیکن جہاں تک ذائقے اور چٹخارے کی بات ہے کوئی مائی کا لال برنس روڈ کے وحید کے کباب، صابر کی نہاری، اپنے ممنون صاحب کے دہی بڑے، دہلی ربڑی ہاؤس کی ربڑی، حلوہ پوری، فریسکو کی مٹھائیاں اور نہ جانے کیا کچھ ہے کہ بس ذائقے اور مزے میں حرف آخر ہے۔ مجھے آپ جنونی سمجھیں یا نشے میں جانیں ، لیکن میراچیلینج ہے کہ اس سہرے سے کہدے کوئی بڑھ کر سہرا۔ اگر کوئی ذائقہ برنس روڈ کے ذائقے سے بڑھ کر ہے تو وہ ذائقے کی معنی سے ہی واقف نہیں۔

میرے کورنگی کے ایک پڑوسی جن کے والدین پاکستان چوک کے پاس جنرل پوسٹ آفس والوں کے فلیٹوں میں رہتے تھے، مجھے اپنا گھر دکھانے اور کراچی “ گھمانے” لے گئے۔ میری عمر اس وقت کوئی دس گیارہ سال کی ہوگی۔ کراچی انٹرکان، پولو گراؤنڈ، برنس گارڈن والے عجائب گھر، وہ کھڑکی جہاں سے لیاقت علی خان نے مکا دکھایا تھا، پاکستان چوک وغیرہ کی سیر کراتے ہوئے مجھے ایک دکان میں لسی پلانے لے گئے۔ اور یہ دکان تھی برنس روڈ کی “نیو پنجاب لسی ہاؤس”۔ تب یہ کراچی کی سب سے مشہور لسی کی دکان تھی۔ اس کے بعد کئی جگہ لسی پی لیکن وہ پہلا ذائقہ مجھے آج تک کہیں نہیں ملا۔

اسی کے پڑوس میں کہیں “ ہیومور “ Have More” آئس کریم تھی جہاں ہم نے سبز رنگ کی پستہ قلفی کھائی۔ جنہوں نے یہ قلفی کھائی ہے وہ میری بات کی گواہی دینگے کہ اس جیسی پستہ قلفی کہیں اور نہیں۔ گئے دنوں میں ہم کوکنیوں کی شادیاں بڑی سادہ ہوا کرتی تھیں اور اکثر شادیوں میں صرف ہیو مور کی پستہ قلفی سے ہی مہمانوں کی تواضع کی جاتی تھی اور مہمانوں کی خوشی دیدنی ہوتی تھی۔ بعد میں ان کی شاخ بہادر آباد میں بھی کھل گئی تھی۔

قلفی کی بات چلی ہے تو لگے ہاتھوں الحاج چودھری فرزند کی قلفی کی بات بھی ہوجائے جسے میں نے پہلی بار اس دعوت میں کھایا تھا جہاں بندو خان کے کباب بھی تھے۔ تب میں لونڈا سا تھا اور حیلے بہانوں سے تقریباً پانچ چھ قلفیاں اس دعوت میں اڑائی تھیں۔ کالج کے دنوں میں، میرا دوست اسلم اور میں اکثر فرزند علی کی قلفی کھاتے ( یہ اور بات ہے کہ پیسے شاید ہی کبھی دئیے ہوں۔ ان کا باہر سے ٹوکن لینے کا سسٹم تھا جس میں کچھ ایسے سقم تھے کہ ہم آسانی سے ڈنڈی مار لیا کرتے۔ اسے ہم جرم نہیں “ اسمارٹنیس” یعنی ہوشیاری سمجھتے تھے)۔

واپس برنس روڈ چلتے ہیں جہاں ہم فریسکو کی بالو شاہیاں چھوڑ آئے ہیں اور جس کے سامنے نکڑ پر دہی بڑے کا وہ بڑا سا مٹکا ، جو برنس روڈ پر ہونے والے ہنگامے، پولیس فائرنگ اور آنسو گیس کے شیل، طلباء کا پتھراؤ جس کا بال بھی باکا نہ کرسکے اور اس مٹکے کے دہی بڑے آج بھی کراچی کے سب سے مشہور دہی بڑے ہیں۔

برنس روڈ سے بندروڈ کی جانب جائیں تو ڈاکٹر حمید کے ہومیوپیتھک دواخانہ سے متصل “ صابر “ کی نہاری ہے جہاں سے ایک بار کورنگی سے بہت سارے دوستوں کے ساتھ آکر “ نہاری” سے سحری کی تھی۔ اب آپ ہی بتائیے جس نے پہلی نہاری صابر کی اور پہلی لسی نیو پنجاب کی اور پہلے کباب بھائی غفار کے کھائے ہوں وہ کیسے اس نشے اور اس خمار کو بھول سکتا ہے۔ اب تو کراچی میں زاہد کی نہاری، جاوید کی نہاری، فرپو کی نہاری اور اللہ جانے کس کس کی نہاری مشہور ہوگئی ہے لیکن ایک زمانے میں صرف اور صرف صابر کی نہاری کا نام چہار دانگ عالم میں گونجتا تھا۔

بریانی کا مجھے کوئی خاص شوق نہیں تھا۔ایک بار پردیس سے چھٹی پر آیا تو دوست زبردستی مجھے جیکب لائنز کی جھگیوں میں بنے ایک ڈھابے میں لے گئے جہاں کچا فرش تھا۔ میلی چیکٹ میزیں تھیں اور ایلمونیم کی مڑی تڑی پلیٹوں میں بریانی کھلائی اور مجھے سمجھ آتی گئی کہ وہ مجھے گھسیٹ کر جیکب لائنز کے اس کیفے ڈی پھونس میں کیوں لائے جسے آج دنیا “ اسٹوڈنٹ بریانی” کے نام سے جانتی ہے اور جس کی شاخیں اب دوبئی، شارجہ، ابوظہبی، لندن، نیویارک، ٹورنٹو اور جنے دنیا بھر میں کہاں کہاں ہیں۔ ویسے آپس کی بات ہے مجھے اس وقت کوئی خاص مزہ نہیں آیا تھا لیکن اس کے تیس پینتیس سال بعد جب شارجہ میں اسٹوڈنٹ بریانی کھائی تو واقعی زبردست تھی۔

کراچی اور کراچی کے ذائقوں سے شناسائی میں میرے چھوٹا چچا کا بہت ہاتھ ہے۔ میں نے زیادہ تر کراچی ان کے ساتھ ہی دیکھا۔ کیفے گلوریا، پاک آئسکریم، کیفے جارج، آکسفورڈ کیفے وغیرہ میں ان کے ساتھ ہی گیا جن کی اپنی اپنی کہانیاں ہیں۔ یہی چچا مجھے ایک دن صدر میں جہانگیر پارک کے ایک گوشے میں بنے ایک ریسٹوران میں لے گئے۔ یہ حاجی گھسیٹے خان کی حلیم تھی۔ اس سے پہلے کورنگی میں یا تو محرم کے دنوں میں بنی حلیم اور کھچڑا کھائے تھے یا گلی میں ٹھیلوں پر بیچنے والوں کی حلیم بہ کراہت کھائی تھی کہ امی کو ان کی صفائی پر تحفظات رہتے تھے۔ لیکن گھسیٹے خان کی حلیم کا ایسا نشہ تھا کہ بعد میں جب ملازمت شروع کی اور جب کبھی جہانگیر پارک کے قریب سے گذرنا ہوا، گھسیٹے خان کی حلیم ضرور کھائی۔ ایک بار اسی حلیم کے بدولت ایسی شدید “ زہر خورانی” ( فوڈ پوائزن) ہوئی کہ جان ہی نکل گئی۔ اس میں قصور شاید حلیم کا نہیں بلکہ ان مرچوں کا تھا جو میں نے جذباتی ہوکر کچھ زیادہ چھڑک لی تھیں۔

ٹھیک سے یاد نہیں کہ “ اللہ کی رحمت کا محمدی ہوٹل” تھا یا “ سندھ اسلامیہ ہوٹل”۔ اتنا یاد ہے کہ بولٹن مارکیٹ کے آس پاس ان دو میں سے کسی ہوٹل میں چچا مجھے لے گئے تھے جہاں پہلی بار “ دال فرائی” سے آشنائی ہوئی۔ اچار کی ایک لکیر جو پلیٹ کے ایک سرے سے دوسرے تک چلی گئی تھی دال کو عجیب دوآتشہ بناتی تھی۔ گرچہ چھوٹی ہے ذات بکری کی۔۔لیکن مجھے وہ دال فرائی آج بھی مل جائے تو میں فائیو اسٹار ہوٹلز کے فل کورس ڈنر کو تج دینے کو تیار ہوں۔ وہی، بخشم سمرقند وبخارا والی بات۔

چچا کے ساتھ ہی منوڑا میں کلب روڈ کی گلی جو سمندر کی جانب جاتی ہے ، میں بنے ایک چھوٹے سے ہوٹل میں مچھلی فرائی کھائی جس پر چھڑکے ہوئے مصالحوں نے اس لذیذ تر بنادیا تھا۔ ہم کوکنیوں کا دعوا ہے کہ ہم دنیا کی لذیذ ترین مچھلی بناتے ہیں۔ اگر منوڑا کی مچھلی پسند آئی تو یقیناً اس میں کچھ بات ضرور تھی ورنہ حسن اسکوائر پر رہتے ہوئے وہاں کی مشہور مچھلی کو میں نے آج تک منہ نہیں لگایا۔

صدر ٹرام پٹے پر دودھ دہی ایک دکان تھی جو شاید پارسی ٹیمپل سے متصل تھے یا اس کے کونے پر تھی۔ شاہراہ عراق سے سندھ سیکریٹریٹ اپنی پہلی ملازمت پر جاتے ہوئے اکثر وہاں رک کر اونٹے ہوئے دودھ کا پیالہ پیتا۔ اس دکان کی لسی بھی مشہور تھی لیکن نیو پنجاب جیسی نہ تھی لیکن دودھ بڑا مزیدار ہوتا۔

اب تو شاید کسی کو یاد بھی نہ ہو کہ پلازہ سنیما کہاں ہوتا تھا۔ اس پلازہ سنیما کے سامنے ایک چھوٹے سے کھوکھے پر ایک میلا کچیلا سا عمر رسیدہ میمن بوڑھا مٹر کے بھنے ہوئے دانے (جسے بمبئی کی زبان میں “ وٹانے” کہتے ہیں) کو ایک بڑی سی دیگچی میں ابال رہا ہوتا۔ اسے وہ “ رگڑا” کہتا تھا۔ اس رگڑے پر نمک مرچ چھڑک کر دیتا اور اگر آپ اپنی نفاست پسندی کو ایک طرف رکھ دیں تو آپ ایک ناقابل فراموش ذائقے سے آشنا ہوجاتے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ بوڑھا اب نہیں ہوگا نہ اس کا رگڑے کا کھوکھا۔ پلازہ سنیما بھی نہیں رہا۔ مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے۔

ذائقوں کے اس سفر میں کئی چھوٹے موٹے مقام اور بھی ہیں کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں۔ یونائٹیڈ بیکری کے پف اور پیٹیز، ہانگ کانگ چائنیز کیفے کا چکن کارن سوپ، سلیمان مٹھائی والے کا کھاجہ، پاسپورٹ آفس کے پاس بکنے والا گنے کا رس، بحرین میں شکری کا شاورما اور بحرین میں ہی “ فش اینڈ چپس “کی واحد دکان کے فش اینڈ چپس جس کے کھانے کے بعد آپ گوروں کے فش اینڈ چپس کو نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھیں۔ اور اوال سینما والی سڑک کے کونے پر ایرانی کا روٹی میں رول کئے ہوئے تکے اور کلفے والے سلاد والا سینڈویچ۔ بلیک برن ، انگلینڈ کی جہازی سائز کی بالو شاہی اور لندن کے انبالہ سوئیٹس کے گلاب جامن اور حبشی حلوہ۔

ان میں سے شاید ایک آدھ ذائقے سے آپ بھی آشنا ہوں۔ آپ کے اپنے تجربات ہوں گے۔ ہر ایک کا اپنا اپنا ذوق ، اپنی اپنی پسند ہوتی ہے۔ بس یہ خیال رہے کہ کہ ان میں سائل اور محروم کا بھی حق ہے۔ ان سے لطف اندوز ہوں تو انہیں بھی یاد رکھیں۔ ساری دنیا میں یہ نعمتیں بکھری ہوئی ہیں۔ اور تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھلاؤگے۔ الحمدللّٰہ ، ثم الحمدللّٰہ