جمیلؔ مظہری یومِ ولادت 02؍ستمبر

02؍ستمبر 1904*

*اپنے غیر روایتی خیالات کے لئے معروف شاعر” جمیلؔ مظہری صاحب “ کا یومِ ولادت…*

نام *سیّد کاظم علی* ، *جمیلؔ* تخلص ۔ *۲؍ستمبر ۱۹۰۴ء* کو *پٹنہ، (بہار)* میں پیدا ہوئے۔ وطن *حسن پورہ ضلع سارن (بہار)* تھا۔ کلکتہ یونیورسٹی سے ۱۹۳۱ء میں فارسی میں ایم اے کیا اور روزنانہ *’عصرجدید‘* کلکتہ میں کالم لکھ کر ادبی زندگی کا آغاز کیا۔ *وحشتؔ کلکتوی* سے تلمذ حاصل تھا۔ ۱۹۴۶ء میں صوبہ بہار کے افسر اطلاعات کے عہدے پر مامور ہوئے۔۱۹۵۰ء میں پٹنہ یونیورسٹی میں اردو اور فارسی کے پروفیسر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ سیاست میں حصہ لینے پر ۱۹۴۲ء میں جیل گئے۔ اپنی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت ہند سے ’’غالبؔ ادبی ایوارڈ‘‘ حاصل کیا۔ *۲۳؍جولائی ۱۹۷۹ء* کو انتقال کرگئے۔ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
*’عرفان جمیل‘، ’فکرِ جمیل‘، ’نقشِ جمیل‘، ’وجدانِ جمیل‘*۔ نظم ،غزل، گیت ،رباعیات، قطعات اور مراثی میں طبع آزمائی کی۔ شادؔ عظیم آبادی اور یگانہؔ چنگیزی کے بعد بہار کے ممتاز ترین شعرا میں جمیل مظہری کا شمار ہوتا ہے۔
*بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:377*

🌹✨ *پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ*

🌹🎊 *ممتاز شاعر جمیلؔ مظہری کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت…*🎊🌹

ہم محبت کا سبق بھول گئے
تیری آنکھوں نے پڑھایا کیا ہے

کوئی سوال خدا و صنم نہیں اے دوست
میں کیا کروں مری گردن میں خم نہیں اے دوست

جلانے والے جلاتے ہی ہیں چراغ آخر
یہ کیا کہا کہ ہوا تیز ہے زمانے کی

بہ قدر پیمانۂ تخیل سرور ہر دل میں ہے خودی کا
اگر نہ ہو یہ فریبِ پیہم تو دم نکل جائے آدمی کا

بتوں کو توڑ کے ایسا خدا بنانا کیا
بتوں کی طرح جو ہم شکل آدمی کا ہو

آیا یہ کون سایۂ زلفِ دراز میں
پیشانئ سحر کا اجالا لیے ہوئے

اے سجدہ فروش کوئے بتاں ہر سر کے لیے اک چوکھٹ ہے
یہ بھی کوئی شان عشق ہوئی جس در پے گئے سر پھوڑ لیا

بدل جاتے ہیں دل حالات جب کروٹ بدلتے ہیں
محبت کے تصور بھی نئے سانچوں میں ڈھلتے ہیں

*کچھ بھی نہیں ہے عالمِ ذرات سے آگے*
*اک عالم ہو عالمِ اصوات سے آگے*

زندگی طائر صحرا تھی بہ شوقِ پرواز
زندگی صید تہہِ دام ہوئی جاتی ہے

*مظہریؔ چل نہ سکے وقت سبک گام کے ساتھ*
*ہم سفر پیروئ وقت سبک گام غلط*

کسی کا خون سہی اک نکھار دے تو دیا
خزاں کو تم نے لباسِ بہار دے تو دیا

وہ منزل تھی تحیر کی یہ منزل ہے تفکر کی
وہاں پردہ بھی جلوہ تھا یہاں جلوہ بھی پردا ہے

الجھی تھی زلف اس نے سنوارا سنور گئی
شانے کو کیا خبر یہ بلا کس کے سر گئی

ترا حسن بھی بہانہ مرا عشق بھی بہانہ
یہ لطیف استعارے نہ سمجھ سکا زمانہ

بخشش ہے تیری ہاتھ میں دنیا لیے ہوئے
میں چپ کھڑا ہوں دیدۂ بینا لیے ہوئے

خلاف رسمِ تغزل غزل سرا ہوں میں
ربابِ وقت کی بگڑی ہوئی صدا ہوں میں

تعلقات تو مفروضے زندگی کے ہیں
یہاں نہ کوئی ہے اپنا نہ ہم کسی کے ہیں

*کھلا ہے اور کھلے گا جمیلؔ سب کے لیے*
*یہ مے کدہ ہے کنشت و حرم نہیں اے دوست*

●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●

🌸 *جمیلؔ مظہری*🌸

*انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ*