احمد راہیؔ یومِ وفات 02؍ستمبر

02؍ستمبر 2002

*شاعر،نغمہ نگار،بانی مدیر سہ ماہی ” سویرا ” اور ممتاز شاعر” احمد راہیؔ صاحب “ کا یومِ وفات…*

نام *غلام احمد* اور تخلص *راہیؔ* تھا۔ *۱۲؍نومبر ۱۹۲۳ء* کو *امرتسر* میں پیدا ہوئے۔ *سیف الدین سیفؔ* *احمد راہی* کے اسکول اور کالج کے ساتھی تھے۔ انھوں نے شروع ہی سے *سیف الدین سیفؔ* جنھیں وہ اپنا استاد تسلیم کرتے تھے ان کو اپنی غزلیں اور نظمیں دکھانا شروع کردیں۔ قیام پاکستان کے بعد لاہور آگئے۔ ماہ نامہ *’’سویرا‘‘* کے ایڈیٹر رہے۔ پنجابی فلم *’’بیلی‘‘* کے گیت لکھے۔ بعض فلموں کے اسکرپٹ بھی لکھے۔ انھوں نے متعدد پنجابی فلموں کے گیت لکھے۔ اردو فلموں کی نغمہ نگاری کی۔ وہ فلم نگر میں ایسے کھوگئے کہ وہیں کے ہو رہے۔ان کی کتاب *’’ترنجن‘‘* کو پنجابی میں اعلی مقام حاصل ہے۔ حکومت نے انھیں تمغا برائے حسن کارکردگی سے نوازا۔ *احمد راہی،2؍ستمبر 2002ء* کو *لاہور* میں راہی ملک عدم ہوگئے۔
*بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:152*

🌹✨ *پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ*

💐 *ممتاز نغمہ نگار احمد راہیؔ کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…* 💐

وہ بے نیاز مجھے الجھنوں میں ڈال گیا
کہ جس کے پیار میں احساس ماہ و سال گیا

جس راہ سے بھی گزر گئے ہم
ہر دل کو گداز کر گئے ہم

کوئی حسرت بھی نہیں کوئی تمنا بھی نہیں
دل وہ آنسو جو کسی آنکھ سے چھلکا بھی نہیں

*تنہائیوں کے دشت میں اکثر ملا مجھے*
*وہ شخص جس نے کر دیا مجھ سے جدا مجھے*

میں دل زدہ ہوں اگر دل فگار وہ بھی ہیں
کہ دردِ عشق کے اب دعویدار وہ بھی ہیں

قد و گیسو لب و رخسار کے افسانے چلے
آج محفل میں ترے نام پہ پیمانے چلے

سنا رہے ہیں جہاں کو حدیث دار و رسن
حکایت قد و گیسو رقم نہیں کرتے

کوئی ماضی کے جھروکوں سے صدا دیتا ہے
سرد پڑتے ہوئے شعلوں کو ہوا دیتا ہے

یہ داستانِ غمِ دل کہاں کہی جائے
یہاں تو کھل کے کوئی بات بھی نہ کی جائے

*نہ جانے میں کس ادھیڑ بن میں الجھ گیا ہوں کہ مجھ کو راہیؔ*
*خبر نہیں کچھ وہ آرزوئے سکوں کہاں تھک کے سو گئی ہے*

●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●

🔲 *احمد راہیؔ*🔲

*انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ*