*آج – 12؍اگست 1915*
*ممتاز ترین جدید شاعروں، نقادوں میں نمایاں اور معروف شاعر” وحیدؔ اختر صاحب “ کا یومِ ولادت…*
نام *ڈاکٹر وحید اختر* اور تخلص *وحیدؔ* ہے۔ *12؍اگست 1915ء* کو *اورنگ آباد ،دکن* میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۵۴ء میں جامعہ عثمانیہ سے بی اے کیا اور 1956ء میں ایم اے کیا۔ 1960ء میں *خواجہ میر دردؔ* کے تصوف پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کی پہلی نظم 1949ء میں شائع ہوئی۔ان کی طبیعت کا رجحان نظم کی طرف زیادہ ہے ۔ ان کی تخلیقات ہندستان اور پاکستان کے معیاری رسالوں میں شائع ہوتی رہتی ہے۔طالب علمی کے زمانے میں اورنگ آباد کالج کے رسالہ *’’نورس‘‘* اور مجلہ *’’عثمانیہ‘‘* کے مدیر رہ چکے ہیں۔ رسالہ *’’صبا‘‘* کی ادارت کے رکن کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے۔ علی گڑھ یونیورسٹی میں صدر شعبۂ فلسفہ رہے۔ *’’پتھروں کا مغنی‘‘* کے نام سے ان کا کلام چھپ گیا ہے۔ ان کے دیگر شعری مجموعوں کے نام یہ ہیں:
*’’زنجیر کا نغمہ‘‘، ’’شب کا رزمیہ‘‘*۔
*13؍دسمبر 1997ء* کو انتقال کر گئے۔
*بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:301*
🌹✨ *پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ*
━━━━━━ ❃❃✺ ✿✺❃❃ ━━━━━━
🌸🎊 *معروف شاعر وحیدؔ اختر کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…* 🎊🌸
نیند بن کر مری آنکھوں سے مرے خوں میں اتر
رت جگا ختم ہو اور رات مکمل ہو جائے
—
ہزاروں سال سفر کر کے پھر وہیں پہنچے
بہت زمانہ ہوا تھا ہمیں زمیں سے چلے
—
ہر ایک لمحہ کیا قرض زندگی کا ادا
کچھ اپنا حق بھی تھا ہم پر وہی ادا نہ ہوا
—
اندھیرا اتنا نہیں ہے کہ کچھ دکھائی نہ دے
سکوت ایسا نہیں ہے جو کچھ سنائی نہ دے
—
جو سننا چاہو تو بول اٹھیں گے اندھیرے بھی
نہ سننا چاہو تو دل کی صدا سنائی نہ دے
—
خشک آنکھوں سے اٹھی موج تو دنیا ڈوبی
ہم جسے سمجھے تھے صحرا وہ سمندر نکلا
—
*تو غزل بن کے اتر بات مکمل ہو جائے*
*منتظر دل کی مناجات مکمل ہو جائے*
—
ﮨﻢ ﮐﻮ ﻣﻨﻈﻮﺭ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺟﻮ ﻧﮧ ﭘﺮﺩﺍ ﮨﻮﺗﺎ
ﺳﺎﺭﺍ ﺍﻟﺰﺍﻡ ﺳﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﯽ ﻧﮧ ﺁﯾﺎ ﮨﻮﺗﺎ
—
*ﺯﺑﺎﻥِ ﺧﻠﻖ ﭘﮧ ﺁﯾﺎ ﺗﻮ ﺍﮎ ﻓﺴﺎﻧﮧ ﮨﻮﺍ*
*ﻭﮦ ﻟﻔﻆ ﺻﻮﺕ ﻭ ﺻﺪﺍ ﺳﮯ ﺟﻮ ﺁﺷﻨﺎ ﻧﮧ ﮨﻮﺍ*
—
ﮨﻢ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﺳﺰﺍ ﮨﻮ ﺟﺎﻧﺎ
ﺻﺒﺢ ﺩﯾﺪﺍﺭ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﻡ ﻣﻼ ﮨﻮ ﺟﺎﻧﺎ
—
کہیں ﺷﻨﻮﺍﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺣﺴﻦ ﮐﯽ ﻣﺤﻔﻞ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ
ﮔﻞ ﻧﮧ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﻨﺴﺘﮯ ﺭﮨﯿﮟ ﺷﻮﺭِ ﻋﻨﺎﺩﻝ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ
—
*ﺩﻓﺘﺮِ ﻟﻮﺡ ﻭ ﻗﻠﻢ ﯾﺎ ﺩﺭِ ﻏﻢ ﮐﮭﻠﺘﺎ ﮨﮯ*
*ﮨﻮﻧﭧ ﮐﮭﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﮎ ﺑﺎﺏِ ﺳﺘﻢ ﮐﮭﻠﺘﺎ ﮨﮯ*
—
ﻟﭙﭩﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﭘﮭﺮﺗﯽ ﮨﮯ ﻧﺴﯿﻢ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻗﺒﺎ ﺳﮯ
ﮔﻞ ﮐﮭﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮨﺮ ﮔﺎﻡ ﭘﮧ ﺩﺍﻣﻦ ﮐﯽ ﮨﻮﺍ ﺳﮯ
—
ﺁﺩﺍﺏ ﻗﺎﻓﻠﮧ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﺯﻧﺠﯿﺮ ﭘﺎﺋﮯ ﺷﻮﻕ
ﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﺳﻔﺮ ﺍﺳﯿﺮ ﺻﺪﺍﺋﮯ ﺟﺮﺱ ﭼﻠﮯ
—
*ﺍﺳﯽ ﺯﻧﺪﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﮐﺎﭦ ﺩﻭ ﻋﻤﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﻭﺣﯿﺪؔ*
*ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﮐﮩﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻗﯿﺪ ﻭﻓﺎ ﮐﯿﺎ ﺩﮮ ﮔﯽ*
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
🌹 *وحیدؔ اختر*🌹
*انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ*