اردو والے ہی اردو رسم الخط کے گرتے گراف کے ذمہ دار….ضمیر درویش

ہر بڑی زبان کا دل بھی بڑا ہوتا ہے اور وہ بلا تکلف دوسری زبانوں کے الفاظ قبول کر تی رہتی ہے۔ اردو بھی اپنے دامن میں عربی، فارسی، ترکی اور ہندی کے بےشمار لفظوں کا خزانہ لئے ہوے ہے۔ اور یہ عمل فطری طور پر جاری ہے۔ اس سلسلے میں انگریزی کا جواب نہیں جس نے بخوشی دنیا کی ہر زبان کے الفاظ سے خود کو مالا مال کِیا ہے۔ انگریزی میں لیٹن زبان کے دس ہزاروہ الفاظ شیِر شکر کی طرح موجود ہیں جن میں کتنے ہی ایسے ہیں جن کا نعمل بدل انگریزی میں پہلے سے دستیاب تھا۔ انگریزی نے دنیا کے تمام زبانوں کے ادب سے بھی خود کو وسعت دی ہے۔ آغا حشر کاشمیری کے بعد اردو میں دوسری زبانوں کے ادب کا داخلہ نہ کے برابر ہو پایا ہے۔ جبکہ ہندی والوں نے بڑی عقل مندی سے کام لے کر ہندوستان کی ہر علاقائی زبان کے ادب سے ہندی والوں کو روشناس کرا دیا۔ اردو والے جب ہندی ادب کی طرف سے منہ موڑے بیٹھے تھے، ہندی والے میر، غالب، اقبال، فیض، عصمت چغتائی اور منٹو وغیرہ کو ہندی میں انڈیل کر اسے اتنا خود کفیل بنا رہے تھے کہ اردو رسم الخط سیکھے بغیر ہر ہندی والا ارو کے عظیم ادب سے لطف اندوز ہو سکا۔ اس کام میں کئی موقع پرست اردو والے بھی برصغیر کے اردو ادب کو ہندی کا حصہ بنا رہے تھے۔ جس سے سیدھے طور پر اردو رسم الخط کی نفی ہورہی تھی۔وہ اگر اردو والوں کے لیے کالی داس، تلسی داس اور رحیم و رسکھان، یا بھیشم ساہنی،گلیری کو مہیا کراتے تو مَیں کبھی انھیں موقع پرست نہ کہتا بلکہ اردو کے دامن کو وسیع کرنے کے لیے ان کا شکریہ ادا کرتا۔
اردو والے آج بھی اردو کو دبوچ کر بیٹھے ہیں۔اور اب بھی یہ شکوہ ہے کہ ہندی والے ضمیر کو جمیر کیوں کہتے ہیں ارے بھائی جو حرف آپکی زبان میں نہیں ہےاپ بھی تو اسے بول نہیں پاتے اور ہندی والوں نے تو بندی لگا کر ز خ غ وغیرہ کا توڑ نکال کر آپ کی ہنسی کا معقول جواب دے بھی دیا۔جب عربی والے پہاڑ کو بہار اور فارسی والے پہار بولتے ہیں تو آپکی وہ ہنسی کہاں گُم ہوجاتی ہے جو آپ ہندی پر ہنستے ہیں۔
ہاں تو یہ جمود ہے اور اسے توڑنا ضروری ہے۔ جب تک اردو علاقائی اور بین الاقوامی ادب سے خود کو اتنا مالا مال نہ کرلے کہ رابندر ناتھ ٹیگور، قاضی نذر الاسلام کو بنگالی سیکھے بغیر، بابا بُلٌے شاہ اور بابا فرید گنج شکر کو پنجابی سیکھے بغیراردو میں نہ پڑھ لیں تب تک اردو رسم الخط کا گراف اسی طرح نیچے جاتا رہے گا۔ آپ یہ کہ کر گال بجا رہے ہیں کہ ہم نے قرآن سمیت سارا مذہبی لٹریچر ہندی میں مہیا کرادیا۔ نقصان کس کا ہُوا ؟ اردو رسم الخط کا۔ کتنا اچھا ہوتا نماز پڑھنے کا طریقہ سیکھنے کے لیے اپنی مادری زبان سیکھنے کی تڑپ پیرا ہوتی۔اب بھی وقت ہے اردو میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی خلا ء کو پُر کیجئے۔ مشاعروں اور غزل کے تھوک کے بھاؤ میں چھپنے والے مجموعوں کی اشاعت سے پیسہ بچاکر بچوں کے لیے پُر کششِ نصابی کتابیں شایع کیجئے جن کی آج تکلیف دہ حد تک قلت ہے۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اور تمام اردو اکادمیوں کو بھی اپنا رویہ بدل کر اس طرف توجہ دینی ہوگی۔
بیٹیوں کو خاص طور سے اردو رسم الخط جہیز میں دینا ہوگا تاکہ وہ اسے آنے والی نسل کے سپرد کر سکیں۔ اسرائیل کے قیام سے پہلے ہبرو ایک مردہ زبان تھی مگر ہر یہودی کے کچن میں محفوظ تھی اسی لیے تھوڑی سی محنت کے بعد ہبرو زندہ ہوکر اسرائیل کی سرکاری زبان بن گئی۔ اسی لئے عرض ہے کہ،
مت سمجھ لینا کہ اردو ہے بخیر،
بیٹیوں کو جب تلک اردو نہ آئے۔

ضمیر درویش