جو گزری مجھ پہ مت اس سے کہو ہوا سو ہوا سودا

جو گزری مجھ پہ مت اس سے کہو ہوا سو ہوا
بلا کشان محبت پہ جو ہوا سو ہوا

مبادا ہو کوئی ظالم ترا گریباں گیر
مرے لہو کو تو دامن سے دھو ہوا سو ہوا

پہنچ چکا ہے سر زخم دل تلک یارو
کوئی سبو کوئی مرہم رکھو ہوا سو ہوا

خدا کے واسطے آ درگزر گنہ سے مرے
نہ ہوگا پھر کبھو اے تند خو ہوا سو ہوا

یہ کون حال ہے احوال دل پہ اے آنکھو
نہ پھوٹ پھوٹ کے اتنا بہو ہوا سو ہوا

نہ کچھ ضرر ہوا شمشیر کا نہ ہاتھوں کا
مرے ہی سر پہ اے جلاد جو ہوا سو ہوا

دیا اسے دل و دیں اب یہ جان ہے سوداؔ
پھر آگے دیکھیے جو ہو سو ہو ہوا سو ہوا

*(آج سودا کی اس غزل کا انتخاب برادر سید ایاز محمود نے کیا ہے)*