اردو مرکبات کے بارے میں

*کئی سال پہلے اردو زبان کے ماہرین مل بیٹھے تھے، اور انہوں نے اتفاق رائے سے بعض مرکبات کے بارے میں طے کیا تھا کہ انہیں اکٹھا نہیں، الگ الگ لکھنا چاہئیے۔*

*مثلاً: خوبصورت کو “خوب صورت” آجکل کو “آج کل” قلمکار کو “قلم کار” وغیرہ وغیرہ۔*

*لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی طے کیا تھا کہ:*
*مشتقات کو جہاں تک ہوسکے ملا کر ہی لکھنا چاہیے، مثلاً: زمین دار کو “زمیندار”، شان دار کو “شاندار”، دل دار کو “دِلدار” لکھنا چاہیے۔ (البتہ جن مشتقات کو الگ لکھنے کا چلن ہو انہیں الگ لکھنا بھی درست ہے۔)*

*ہمارے معاصر بعض اہلِ علم مرکبات کو الگ الگ لکھنے والے مسئلے پر قیاس کرتے ہوئے بعض ایسے الفاظ کو بھی الگ الگ لکھ دیتے ہیں جن کے الگ لکھنے کا نہ تو رواج رہا ہے، اور نہ ہی اُنہیں الگ لکھنا درست معلوم ہوتا ہے۔*
*مثلاً: لفظ “سُرخُرو” کو بعض سُرخ رُو لکھتے ہیں، جو کہ نہ صرف غلط املا ہے بلکہ معنوی طور پر بھی درست معلوم نہیں ہوتا۔*

*سُرخرو کا معنی ہوتا ہے: کامیاب اور بامراد۔۔۔۔ غلام محمد کلکتوی کا شعر ہے ؎*

*سُرخُرو ہوتا ہے اِنساں آفتیں آنے کے بعد*
*رنگ لاتی ہے حِنا پتھر پہ پِس جانے کےبعد*

*اب اگر اِس کا املا “سُرخ رُو” کر دیں تو اس سے سرخ چہرے والا معنی مترشح ہوگا۔*
*جیسا کہ رشید لکھنوی کا شعر ہے ؎*

*گئے تھے حضرتِ زاہِد تو زرد تھا چہرہ*
*شراب خانے سے نکلے تو سُرخ رُو نکلے*

*اسی طرح کئی مرکب الفاظ کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے جو کہ ناروا ہے۔*

*اردو کے کون سے مرکب الفاظ توڑ کر لکھنے چاہییں، اور کون سے نہیں؟ اس کی تفصیل گوپی چند نارنگ کے املا نامہ (قومی کونسل برائےاردو زبان ہند، طبع اول 1974ء، طبع سوم 2010ء) میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔*

*نسخ و لصق: سید شہاب الدین*