زندگی شاعر: سبطین ضیا رضوی

عطا تھی رب کی جو ملی تھی زندگی جینے کے لیئے ملی تھی ہم نے اس کو بھی بیچ کھایا ہے خود پہ کیسا یہ ستم ڈھایا ہے تنگ اتنے ہیں جی نہیں سکتے ظلم پر لب بھی سی نہیں سکتے چپ کے ماروں کا خون بولے گا کب تلک نہ یہ راز کھولے گا مزید پڑھیں

قلم شگوفیاں۔ یاد سے یاد تحریر : سبطین ضیا رضوی

اگا کے پھول پریشان ہو رہا ہوں میں ہوا چلے گی تو خوشبو کہاں چھپاؤں گا ایک ادبی گروپ میں یہ شعر پڑھنے کو ملا۔ اس شعر نے مجھے سالوں کا سفر لمحوں میں کروا دیا ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ یہ ۱۹۹۶ کی ایک سرد اور دسمبرکی یخ بستہ دھندلی شام تھی اور مزید پڑھیں

کاغذ کا ایک ٹکڑا سبطین ضیا رضوی

کاغذ کا اک ٹکڑا۔ بظاہر کاغذ کا اک ٹکڑا تڑا مڑا سا۔ اک بوسیدہ کاغذ کسی کی زیست کا ساماں کسی کے درد کا درماں وہ جس کے بدل میں کوئی مالک زمینوں کا پلاٹوں کا مکانوں کا کاروں کارخانوں کا بہت ہی قیمتی کاغذ ۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی کی عمر کی پونجی کسی کی زیست کا مزید پڑھیں