وہ جنگ ہو بھی چکی فیض احمد فیض

تم یہ کہتے ہو وہ جنگ ہو بھی چکی! جس میں رکھا نہیں ہے کسی نے قدم کوئی اترا نہ میداں میں دشمن نہ ہم کوئی صف بن نہ پائی، نہ کوئی علم منتشر دوستوں کو صدا دے سکا اجنبی دشمنوں کا پتا دے سکا تم یہ کہتے ہو وہ جنگ ہو بھی چکی! جس مزید پڑھیں

نہ اب رقیب نہ ناصح نہ غم گسار کوئی فیض احمد فیض

نہ اب رقیب نہ ناصح نہ غم گسار کوئی تم آشنا تھے تو تھیں آشنائیاں کیا کیا جدا تھے ہم تو میسر تھیں قربتیں کتنی بہم ہوئے تو پڑی ہیں جدائیاں کیا کیا پہنچ کے در پہ ترے کتنے معتبر ٹھہرے اگرچہ رہ میں ہوئیں جگ ہنسائیاں کیا کیا ہم ایسے سادہ دلوں کی نیاز مزید پڑھیں

یہ غم جو اس رات نے دیا ہے فیض احمد فیض

یہ رات اس درد کا شجر ہے جو مجھ سے تجھ سے عظیم تر ہے عظیم تر ہے کہ اس کی شاخوں میں لاکھ مشعل بکف ستاروں کے کارواں گھر کے کھو گئے ہیں ہزار مہتاب اس کے سائے میں اپنا سب نور رو گئے ہیں یہ رات اس درد کا شجر ہے جو مجھ مزید پڑھیں

کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں فیض

*کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں کب ہات میں تیرا ہات نہیں* *صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں* *مشکل ہیں اگر حالات وہاں دل بیچ آئیں جاں دے آئیں* *دل والو کوچۂ جاناں میں کیا ایسے بھی حالات نہیں* *جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت مزید پڑھیں

فیض احمد فیض وفات 20 نومبر 1984

فیض احمد فیض (پیدائش: 13 فروری 1911ء– وفات: 20 نومبر 1984ء) غالب اور اقبال کے بعد اردو کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ آپ تقسیمِ ہند سے پہلے 1911ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ انجمن ترقی پسند مصنفین تحریک کے فعال رکن اور ایک ممتاز اِشتراکیت سٹالنسٹ فکر کے کمیونسٹ تھے۔ بچپن اور ابتدائی مزید پڑھیں