مجنوں گورکھپوری پیدائش 10 مئی

پروفیسر مجنوں گورکھپوری (پیدائش: 10 مئی1904ء – وفات: 4 جون 1988ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے ممتاز محقق، افسانہ نگار، نقاد، مترجم اور پروفیسر تھے۔
مجنوں گورکھپوری 10 مئی 1904ء کو گورکھپور، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام احمد صدیق تھا۔ انہوں نے انگریزی اور اردو میں ایم اے کیا۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ کراچی سے بطور استاد وابستہ رہے۔

ادبی خدمات
مجنوں گورکھپوری کا شمار اردو کے چند بڑے نقادوں میں ہوتا ہے۔ ان کی تنقیدی کتب میں نقوش و افکار، نکات مجنوں، تنقیدی حاشیے، تاریخ جمالیات، ادب اور زندگی، غالب شخص اور شاعر، شعر و غزل اور غزل سرا کے نام اہم ہیں[5]۔ وہ ایک اچھے افسانہ نگار بھی تھے اوران کے افسانوں کے مجموعے خواب و خیال، مجنوں کے افسانے، سرنوشت، سوگوار شباب اور گردش کے نام سے اشاعت پزیر ہوئے۔ وہ انگریزی زبان و ادب پر بھی گہری نظر رکھتے تھے اور انہوں نے شیکسپیئر، ٹالسٹائی، بائرن، برنارڈشا، آسکر وائلڈ اور جان ملٹن کی تخلیقات کو بھی اردو میں منتقل کیا۔

تصانیف
تین مغربی ڈرامے (ترجمہ)
سراب
دُوش و فردا (تنقید)
سمن پوش اور دوسرے افسانے (افسانے)
آغاز ہستی (ترجمہ)
مریم مجدلانی (ترجمہ)
سالومی (ترجمہ)
سرنوشت (ناول)
سوگوار شباب (افسانے)
شعر و غزل
گردش (ناولٹ)
غزل سرا
خواب و خیال
نقوش و افکار (تنقید)
نکاتِ مجنوں (تنقید)
تنقیدی حاشیے (تنقید)
اقبال اجمالی تبصرہ (تنقید)
تاریخِ جمالیات
مجنوں کے افسانے (افسانے)
زہر عشق
پردیسی کے خطوط
غالب شخص اور شاعر (غالبیات)
انتخاب دیوان شمس تبریز
ادب اور زندگی
ارمغانِ مجنوں
سنگھاسن بتیسی
وفات
مجنوں گورکھپوری 4 جون، 1988ء کو کراچی، پاکستان میں انتقال کر گئے اور سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔