قمر جمیل پیدائش 10 مئی

قمر جمیل (پیدائش: 10 مئی، 1927ء – وفات: 27 اگست، 2000ء) پاکستان کے معروف نقاد، صحافی، ادیب، شاعر اور اردو ادب میں جدید تر رجحانات کے بانی تھے۔ان کا ایک شعر طارق عزیز نے اپنے شو میں سنایا تو دوسرے دن ہر ایک کی زبان پہ تھا
ایک پتھر کہ دست یار میں ہے
پھول بننے کے انتظار میں ہے

قمر جمیل 10 مئی، 1927ء کو حیدرآباد، دکن، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام قمر احمد فاروقی تھا جبکہ تخلص جمیل ہےاُن کے شجرئہ نسب میں حضرت آسی غازی پوری اور سیدنا وکیل احمد سکندر پوری کے چہرے نمایاں ہیں۔ حضرت وکیل احمد سکندرپوری مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد کے ہندوستان میں ایک معروف و اہم عالم دین اور مصنف تھے۔ اُن کی کتابیں آج بھی اُن کے علمی تبحر پر گواہ ہیں۔ یہ قمر جمیل کے دادا تھے ان کے والد جمیل احمد تھے، ، آبائی علاقہ سکندر پور (ضلع بلیا) یو پی تھا، الہ آباد سے انٹر اور عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد سے بی اے کیا، ان کے دو شعری مجموعے خواب نما اور چہار خواب شائع ہوئے جبکہ دو جلدوں پر مشتمل تنقیدی مضامین کا مجموعہ جدید ادب کی سرحدیں ان کی وفات سے کچھ عرصے قبل شائع ہوا تھا۔ انہوں نے دریافت کے نام سے ایک ادبی جریدہ بھی جاری کیا تھا۔ وہ طویل عرصے سے ریڈیو پاکستان کے ساتھ وابستہ رہے۔ انہوں نے کراچی سے نثری نظم کی تحریک کا آغاز کیا اور ادیبوں اور شاعروں کی ایک پوری نسل کو تخلیق کا نیا رجحان دیا۔ اردو ادب کے علاوہ عالمی ادب پر گہری نظر رکھتے تھے۔بنیادی رکن پاکستان رائٹرز گلڈ (حلقہ کراچی) تھے

تصانیف
خواب نما (شاعری)
چہار خواب (شاعری)
جدید ادب کی سرحدیں (تنقیدی مضامین)2جلدیں
پاکستانی ادب 1992ء {حصّہ شعر} قمر جمیل/محمد اظہار الحق،( مُرتبین،) اسلام آباد، اکادمی ادبیات، (1993ء) ، 333 صفحات (شعری انتخاب)
نمونہ کلام
ایک عجب شہزادہ میرے باغوں کا

دیکھو آیا موسم سرخ چراغوں کا

ناچ رہی ہے ایک شجر پر ساری بہار

اور یہاں بھی شور بہت ہے زاغوں کا

دل کے اندر جھگڑا دیکھنے والوں میں

دل کے اندر میلہ ایک چراغوں کا

دیکھو اب بھی میرے محل میں رہتا ہے

ایک عجب ویرانہ میرے داغوں کا

وفات
قمر جمیل 27 اگست، 2000ء کو کراچی، پاکستان میں وفات پا گئے۔ وہ کراچی میں عزیزآباد کے قبرستان میں سپردِ خاک ہیں۔