مستانہ وفات 11 اپریل

سٹیج اور ٹی وی کے معروف کامیڈین مرتضیٰ حسن المعروف مستانہ طویل علالت کے بعد بہاولپور کے ایک ہسپتال میں انتقال کرگئے۔

ان کی عمر ستاون برس تھی اور وہ جگر کے کینسر میں مبتلا تھے۔

گوجرانوالہ میں پیدا ہونے والے مستانہ نے لڑکپن میں ہی اداکاری کی دنیا میں قدم رکھ دیا تھا اور چار دہائیوں سے زیادہ عرصہ تک سٹیج اور ٹی وی پر اپنے فن کا جادو جگاتے رہے۔

انہوں نے پنجابی اور اردو دونوں زبانوں کے ڈراموں میں کام کیا۔

وہ پنجابی ڈراموں میں اتنی عمدگی سے مکالمہ بولتے کہ ان پر نسلاً پنجابی ہونے کا گماں ہوتا اور جب اردو مکالمے کی باری آتی تو لگتا کہ اردو ان کی مادری زبان ہے۔

انہیں فی البدیہہ مکالمے کی ادائیگی کا استاد کہا جاتا تھا۔

انہوں نے ایک ڈرامے میں ایک جملہ ’تو مینوں سیریس لی نئیں لے ریا‘ (تو مجھے سنجیدگی سے نہیں لے رہا) اتنے شاندار انداز میں ادا کیا کہ لوگوں کے دل کو بھا گیا۔ بعد میں یہ جملہ انہوں نے بہت سے ڈراموں میں استعمال کیا۔

ان کا سب سے مشہور ڈرامہ ’کوٹھا‘ تھا جو تقریبا دس برس پہلے انہوں نے پرفارم کیا تھا۔ عطاء الحق قاسمی کے لکھے ہوئے ایک ڈرامے میں ان کا ’مسٹر کیوں‘ کا کردار بھی عوام میں بے حد مقبول ہوا جو کہ ہر معاشرتی برائی پرسوالیہ نشان اٹھاتا تھا۔

لاہور سے نامہ نگار علی سلمان کے مطابق ان کی پیشہ وارانہ زندگی کاایک اہم واقعہ دو برس پہلے فیصل آباد کے ایک سٹیج ڈرامے پر پولیس کا چھاپہ تھا۔

پولیس نے فحاشی کا الزام لگا کر سٹیج پر کام کر رہے تمام اداکاروں کو گرفتار کر لیا۔ مستانہ بھی گرفتار ہونے والوں میں شامل تھے۔

مستانہ نے فنکاروں کے ساتھ پولیس کے سلوک کا گہرا اثر لیا اور ہر سٹیج کی زینت اور ہر ڈرامے کی جان مستانہ بجھ سا گیا۔ پولیس چھاپے کے بعد کے عرصے میں ان کی کوئی قابل ذکر پرفارمنس سامنے نہ آ سکی۔ وہ ہیپا ٹائیٹس کے وائرس سے متاثر ہوئے۔ جگر کا کینسر شدت اختیار کر گیا اور وہ مختلف سرکاری ہسپتالوں میں علاج کرواتے رہے۔

بائیس مارچ کو ان کے اکلوتے بیٹے نے انہیں بہاولپور کے وکٹوریہ ہسپتال میں داخل کرایا جو ان کی زندگی کا آخری ٹھکانہ ثابت ہوا۔

مستانہ پاکستانی سٹیج کے ایک معروف مزاحیہ اداکارتھے جو پاکستان کے سٹیج کے پرانے ترین اداکاروں میں سے ایک تھے۔ وہ بہاولپور میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 2000 سے زیادہ تھیٹر ڈراموں میں لاہور میں کام کیا۔ اُن کا 11 اپریل 2011ء کو بہاولپور میں انتقال ہوا –