بھگت سنگھ وفات 23 مارچ

(1907ء تا 23 مارچ، 1931ء) برصغیر کی جدوجہد آزادی کا ہیرو۔ بھگت سنگھ سوشلسٹ انقلاب کا حامی تھا۔ طبقات سے پاک برابری کی سطح پر قائم ہندوستانی معاشرہ چاہتا تھا۔ ضلع لائل پور کے موضع بنگہ میں پیدا ہوئے۔ کاما گاٹا جہاز والے اجیت سنگھ ان کے چچا تھے۔ جلیانوالہ باغ قتل عام اور عدم تعاون کی تحریک کے خونیں واقعات سے اثر قبول کیا۔ 1921ء میں اسکول چھوڑ دی اور نیشنل کالج میں تعلیم شروع کی۔ 1927ء میں لاہور میں دسہرہ بم کیس کے سلسلے میں گرفتار ہوئے اور شاہی قلعہ لاہور میں رکھےگئے۔ ضمانت پر رہائی کے بعد نوجوان بھارت سبھا بنائی اور پھر انقلاب پسندوں میں شامل ہو گئے۔ دہلی میں عین اس وقت، جب مرکزی اسمبلی کا اجلاس ہو رہا تھا انھوں نے اور بے کے دت نے اسمبلی ہال میں دھماکا پیدا کرنے والا بم پھینکا۔ دونوں گرفتار کرلیے گئے۔ عدالت نے عمر قید کی سزا دی۔

1928ء میں سائمن کمیشن کی آمد پر لاہور ریلوے اسٹیشن پر زبردست احتجاجی مظاہرہ ہوا۔ پولیس نے لاٹھی چارج کیا جس میں لالہ لاجپت رائے زخمی ہو گئے۔ اس وقت لاہور کے سینئر سپرٹینڈنٹ پولیس مسٹر سکاٹ تھے۔ انقلاب پسندوں نے ان کو ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا۔ لیکن ایک دن پچھلے پہر جب مسٹر سانڈرس اسسٹنٹ سپرٹینڈنٹ پولیس لاہور اپنے دفتر سے موٹر سائیکل پر دفتر سے نکلے تو شیو رام راج گرو اور بھگت سنگھ وغیرہ نے ان کو گولی مارکر ہلاک کر دیا۔ حوالدار جین نے سنگھ کا تعاقب کیا۔ انہوں نے اس کو بھی گولی مار دی اور ڈی اے وی کالج ہاسٹل میں کپڑے بدل کر منتشر ہو گئے۔ آخر خان بہادر شیخ عبد العزیز نے کشمیر بلڈنگ لاہور سے ایک رات تمام انقلاب پسندوں کو گرفتار کر لیا۔ لاہور کے سینٹرل جیل کے کمرۂ عدالت میں ان پر مقدمہ چلایا گیا۔ بھگت سنگھ اور دت اس سے قبل اسمبلی بم کیس میں سزا پا چکے تھے۔ مقدمہ تین سال تک چلتا رہا۔ حکومت کی طرف سے خان صاحب قلندر علی خان اور ملزمان کی طرف سے لالہ امرد اس سینئر وکیل تھے۔ بھگت سنگھ اور سکھ دیو کو سزائے موت کا حکم دیا گیا اور 23 مارچ، 1931ء کو ان کو پھانسی دے دی گئی۔ فیروز پور کے قریب دریائے ستلج کے کنارے، ان کی لاشوں کو جلا دیا گیا۔ بعد میں یہاں ان کی یادگار قائم کی گئی۔
بھگت سنگھ اور قائد اعظم
قائد اعظم محمد علی جناح نے بھگت سنگھ کے لیے بھرپور آواز اٹھائی تھی۔متحدہ ہندوستان کی مرکزی اسمبلی کے اجلاس منعقدہ شملہ میں 12 ستمبر 1929 کو قائد اعظم نے حکومت برطانیہ کو آڑے ہاتھوں لیا جبکہ گاندھی اور اُن کے چاہنے والے خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔ بھگت سنگھ اور اس ساتھیوں نے مقدمے میں فئیر ٹرائل کا حق نہ ملنے پر بھوک ہڑتال کر رکھی تھی اور ہوم ممبر (وزیر داخلہ) نے اسمبلی میں مسودہ قانون پیش کیا کہ ملزم کی غیر حاضری میں ہی مقدمہ چلا کر سزا دی جائے۔ اس پر محمد علی جناح نے جو بمبئی سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے، ہوم ممبر کی اس تجویز کا سختی کے ساتھ رد کرتے ہوئے کہا: ” کیا آپ بھوک ہڑتال سے بدتر تشدد کسی بھی چیز کو سمجھتے ہیں؟ ان (ملزمان) کا یہ فعل درست ہے یا غلط لیکن آپ پر اس کا رتی بھر اثر نہیں ہو رہا۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کسی بھی ملزم کے بنیادی قانونی حقوق کس طرح چھین سکتے ہیں؟ آپ کو یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ آپ کریمنل جیورس پروڈنس کا اہم ترین اصول اپنے مفاد کے لیے تبدیل کر سکیں؟ ہر شخص بھوک ہڑتال کی اذیت برداشت نہیں کر سکتا ۔۔۔۔ اگر یہ اس قدر آسان ہے تو ہوم ممبر خود بھوک ہڑتال کر کے دیکھ لیں ۔۔۔ چاہے مختصر وقت کے لیے ہی سہی ۔۔۔۔ لیکن آپ ایسا نہیں کر سکیں گے کیونکہ آپ کے اندر ارادے کی وہ مضبوطی اور عزم نہیں جو بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں میں ہے۔ آج ہندوستان اٹھ کھڑا ہوا ہے، تیس کروڑ لوگ اپنے حقوق کے اٹھ کھڑے ہیں لیکن آپ یہ نہیں دیکھ رہے کیونکہ آپ دیکھنا نہیں چاہتے۔ آپ پاس صرف آپ کی اپنی منطق ہے ۔۔۔۔ سفاک منطق! آج اگر ہندوستانی حقوق چاہتے ہیں تو یہ کوئی انہونی یا انوکھی بات نہیں۔ دنیا کے متعدد مالک میں ایسی تحاریک چل رہی ہیں۔ صرف نوجوان ہی نہیں، سفید بالوں اور داڑھیوں والے بزرگ بھی ایسے افعال کرنے پر مجبور ہیں جنہیں آپ اپنی منطق کے مطابق جرم کہتے ہیں۔”