اداکارمحمد علی وفات 19 مارچ

معروف اداکار محمد علی جنہیں شہنشاہ جذبات کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ پاکستان فلم انڈسٹری کے سنہرے دور کی جب بھی تاریخ لکھی جائے گی تو شہنشاہ جذبات محمد علی کا نام سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔ محمد علی ایک بہت بڑے فنکار اور عظیم انسان تھے۔ انہوں نے اداکاری میں اَنمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔
محمد علی 19 اپریل، 1931ء میں بھارت کے شہر رام پور میں پیدا ہوئے۔ چار بھائی بہنوں میں وہ سب سے چھوٹے تھے۔ سب سے بڑے بھائی ارشاد علی تھے۔ محمد علی ابھی تین سال کے تھے کہ ان کی والدہ فوت ہو گئیں۔ ان کے والد سید مرشد علی نے ان کی پرورش کی خاطر دوسری شادی نہیں کی حالانکہ اس وقت ان کی عمر 35 برس تھی۔

محمد علی کا خاندان بہت مذہبی تھا۔ ان کے ہاں انگریزی تعلیم کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ محمد علی کے والد سید مرشد علی بہت بڑے دینی عالم تھے۔ محمد علی نے 14 سال تک اسکول کی شکل نہ دیکھی وہ صرف مدرسے میں اردو، عربی، فارسی وغیرہ کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔

1943 ء میں اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کر کے ملتان آ گئے۔ ملتان کی گڑ منڈی کی ایک مسجد میں محمد علی اپنے والد کے ساتھ 12 سال رہے۔ اس مسجد میں ان کے والد خطیب تھے۔

ملتان آنے کے کچھ عرصے بعد سید مرشد علی کی سوچ میں تبدیلی آئی کہ وقت کے ساتھ چلنے کے لیے انگریزی تعلیم ضروری ہے اس لیے انہوں نے 1949ء میں محمد علی کو اسلامیہ اسکول ملتان میں داخل کرا دیا۔ ان کا ساتویں کلاس میں داخلہ ہوا اس کے ایک برس بعد ملت ہائی اسکول ملتان میں انہیں نویں کلاس میں داخلہ مل گیا۔

محمد علی کے خاندان کے زیادہ تر لوگ حیدرآباد سندھ میں رہتے تھے اس لیے 1955 ء میں وہ اپنے خاندان کے ساتھ حیدرآباد منتقل ہو گئے۔ اور سٹی کالج حیدرآباد سے انٹر پاس کیا۔

محمد علی کو پائلٹ بننے کا شوق تھا اور وہ پائلٹ بن کر ایئر فورس جوائن کرنا چاہتے تھے۔ مگر معاشی حالات تنگ تھے ان کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ ایبٹ آباد جاکر ٹرینینگ حاصل کرسکیں۔

انہیں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنا مشکل نظر آ رہا تھا۔ ذریعہ معاش کے لیے انہوں نے کوئی کام کرنے کا سوچا۔ ان کے بڑے بھائی ارشاد علی ریڈیو پاکستان حیدرآباد میں بطور ڈراما آرٹسٹ کام کر رہے تھے۔ انہوں نے ڈرائریکٹر قیوم صاحب سے محمد علی کا تعارف کرایا۔

محمد علی نے اپنے کیرئر کا آغاز ریڈیو پاکستان حیدرآباد، سندھ سے کیا۔ ان کی بھرپور آواز نے انہیں ایک بہترین ریڈیو صداکار کی حیثیت سے منوایا اور انہیں فلمی دنیا تک پہنچانے میں بھی ان کی آواز نے ہی اہم کردار ادا کیا۔

اس وقت ایک ڈرامے کی صدا کاری کے دس روپے ملا کر تے تھے۔ بعد ازاں انہوں نے ریڈیو پاکستان بہاولپور سے بھی پروگرام کیے۔ ان کی آواز سن کر ریڈیو پاکستان کے جرنل ڈرائریکٹر ذوالفقار احمد بخاری المعروف زیڈ۔ اے بخاری صاحب نے انہیں کراچی بلا لیا۔ سونے کو کندن بنانے میں زیڈ۔ اے بخاری مرحوم کا بہت ہاتھ تھا۔ انہوں نے محمد علی کو آواز کے اتار چڑھاؤ، مکالموں کی ادائیگی، جذبات کے اظہار کا انداز بیاں اور مائکرو فون کے استعمال کے تمام گرسکھا دیے۔ زیڈ۔ اے بخاری نے ان کی آواز کی وہ تراش خراش کی کہ صدا کاری میں کوئی ان کا مدمقابل نہ رہا۔

دور عروج
1962ء میں فِلم ’ چراغ جلتا رہا‘ سے فلمی کیرئر کا آغاز کیا۔ فلم کا افتتاح کراچی کے نشاط سینما میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے اپنے ہاتھوں سے کیا۔ فلم زیادہ کامیاب نہ ہو سکی مگر محمد علی کی اداکاری اور مکالمے بولنے کے انداز نے دوسرے فلم سازوں اور ہدایتکاروں کو ضرور متوجہ کر لیا۔ اور جلد ہی ان کا شمار ملک کے معروف فلمی اداکاروں میں کیا جانے لگا۔ پہلی فلم کے بعد محمد علی نے ابتدائی پانچ فلموں میں بطور ولن کام کیا ۔ محمد علی کو شہرت 1963 ء میں عید الاضحی پر ریلیز ہونے والی فلم “شرارت” سے ملی۔ انہوں نے درجنوں فلموں میں بحیثیت ہیرو کے کام کیا۔ ان کی فلموں کی زیادہ تر ہیروئن ان کی اپنی اہلیہ زیبا تھیں نیز ان فلموں میں زيادہ تر گانے جو ان پر فلمائے گئے ان کے گلوکار مہدی حسن تھے۔ انہوں نے 300 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ “علی زیب” کی جوڑی اتنی کامیاب تھی کہ انہوں تقریباً 75 فلموں میں اکٹھے کام کیا۔

حالات زندگی
محمد علی اور زیبا کی پہلی فلم “چراغ جلتا رہا” تھی۔ اس فلم کے پہلے ٹیک سے ہی محمد علی زیبا کی محبت میں گرفتار ہو گئے۔ لیکن سدھیر نے زیبا کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھائیں اور شادی کر کے زیبا کو لے اڑے اور محمد علی صاحب دیکھتے رہ گئے۔ دوسری طرف لالا سدھیر نے زیبا کو بھی فلموں میں کام کرنے سے منع کر دیا۔ مگر زیبا نے اس پابندی کو قبول نہیں کیا۔ کچھ فلمی دوستوں کی مدد سے وہ بھاگ کر لاہور واپس آ گئیں اور کچھ عرصے بعد ان میں طلاق ہو گئی۔

فلم “تم ملے پیار ملا” کی شوٹنگ کے دوران ہی بروز جمعرات 29ستمبر، 1966 ء کی سہ پہر تین بجے اداکار آزاد کے گھر واقع ناظم آباد میں محمد علی نے زیبا سے نکاح کر لیا۔ علی زیب نے ایک انتہائی خوش گوار بھر پور ازدواجی زندگی گزاری، کئی یادگار فلموں میں اپنی یادگاری کے جوہر دکھائے، نہ صرف پاکستان، بلکہ دوسرے ممالک میں بھی علی زیب ایک قابل احترام جوڑی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ دونوں نے حج بھی کیا اور کئی عمرے بھی ادا کیے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں بے شماردولت، عزت اور شہرت عطا کی، لیکن اولاد جیسی نعمت سے محروم رکھا۔

اس پر بھی محمد علی اﷲ کے شکر گزار تھے اور اس محرومی کو اﷲ کی مصلحت قرار دیتے تھے۔ محمد علی نے زیبا کی بیٹی ثمینہ جو لالا سدھیر سے تھی۔ اسے اپنی سگی بیٹی کی طرح پالا اسے اپنا نام دیا۔ پندرہ سال تک وہ اپنا ایک خیراتی ادارہ چلاتے رہے۔ شادی کے بعد محمد علی اور زیبا نے “علی زیب” کے نام سے اپنا پروڈکشن ہاؤس قائم کیا اور “علی زیب” کے بینر تلے کافی اچھی اور کامیاب فلمیں بنائیں۔

سماجی و سیاسی زندگی
محمد علی نے کبھی بھی سیاست میں حصہ نہیں لیا۔ ان کے ذو الفقار بھٹو کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے۔ 1974ء میں مسلم سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے ہوئے سلطان قابوس اور شاہ فیصل شہید نے علی زیب ہاؤس میں ہی قیام کیا تھا، اسی دوران فلسطین آزادی کے رہنما یاسر عرفات مرحوم نے بھی محمد علی سے ملنے کی خواہش کی تھی اور مسقط عمان کے سلطان قابوس نے انھیں غیر سرکاری سفیر کی حیثیت سے تعریفی شیلڈ پیش کی، ایران کے شہنشاہ نے پہلوی ایوارڈ دیا۔ اس طرح عالمی سطح پر محمد علی کو مقبولیت حاصل رہی۔ پاکستان میں ہر سربراہ حکومت سے ان کے اچھے اور قریبی تعلقات قائم رہے۔ بھٹو کی حمایت کرنے پر 1977ء میں جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں انھیں جیل بھی کاٹنی پڑی۔ تاہم حالات ٹھک ہونے کے بعد جنرل ضیاء ا لحق سے محمد علی کے اچھے اور قریبی تعلقات ہو گئے۔ وہ ضیاء الحق کے ساتھ 1983ء میں بھارت کے دور پر بھی گئے۔ نواز شریف سے ان کے بہت قریبی تعلقات رہے، وہ ان کے ایڈوائز بھی رہے، محمد علی کو اسی طرح ہمیشہ قومی سطح پر اولیت دی جاتی رہی۔

انھوں نے “علی زیب فاؤنڈیشن” کے تحت سر گودھا، فیصل آباد، ساہیوال اور میانوالی میں تھیلسیمیا میں مبتلا بچوں کے علاج اور کفالت کے لیے ہسپتال قائم کیے، جہاں بلا معاوضہ بچوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس ادارے کے تمام اخراجات وہ اپنے وسائل سے پورے کرتے تھے۔ “علی زیب فاؤنڈیشن” کے علاوہ محمد علی کئی اداروں کے صدر اور فاؤنڈر ممبر رہے۔ ان تمام اموار میں ان کی پیاری بیوی بھی ان کے ہم رکاب رہیں۔ نجی سطح پر بھی علی زیب ضرورت مندوں کی ہر ممکن مدد معاونت کرتے رہتے تھے۔ انھوں نے کئی بیواؤں اور یتیموں کے وظیفے مقرر کر رکھے تھے۔ بہت سے غریبوں کے گھر کے چولہے محمد علی کے امدادی چیک سے جلتے تھے۔ انھوں نے ہمیشہ اپنے ساتھیوں کے بُرے وقت میں کام آتے تھے۔

فلمیں
محمد علی نے 277 فلموں میں کام کیا جن میں 248 اردو، 17 پنجابی، 8 پشتو، 2 ڈبل وریژن انڈین، 1 بنگالی۔ 28 فلموں میں بطور مہمان اداکار اور ایک ڈاکو منٹری فلم میں کام کیا۔

تاثرات
1983ء میں بھارت کے دورے پر گئے۔ اس دورے کے دوران اندرا گاندھی نے ان کے ہمراہی جنرل ضیاء الحق سے خواہش ظاہر کی کہ محمد علی ہماری فلموں میں کام کریں، تاکہ فلموں کے ذریعے ہمارے تعلقات بہتر ہو سکیں، لہٰذا پاکستان آنے کے بعد ضیاء الحق نے خصوصی طور پر محمد علی کو ملاقات کے لیے بلایا اور بھارتی فلموں میں کا م کرنے کے لیے راضی کیا، یوں انھوں نے اپنی بیوی زیبا کے ساتھ منوج کمار کی فلم “کلرک” میں کام کیا لیکن جب منوج کمار نے فلم دیکھی تو محمد علی کی اداکاری کے سامنے خود کو بونا محسوس کیا اس لیے اپنے تعصب کی بنا پرمحمد علی کا سارا اہم کام کاٹ کر ان کا کردار ثانوی کر دیا، جس کے باعث فلم بھی ناکام ہو گئی۔

مسلم سربراہی کانفرنس 1974ء کے دوران فلسطین آزادی کے رہنما یاسر عرفات مرحوم نے محمد علی سے ملنے کی خواہش کی تھی۔

اعزازات
مسلم سربراہی کانفرنس 1974ء کے دوران ہی مسقط عمان کے سلطان قابوس نے انھیں غیر سرکاری سفیر کی حیثیت سے تعریفی شیلڈ پیش کی اور ایران کے شہنشاہ نے پہلوی ایوارڈ دیا۔

آخری ایام
وہ 19 مارچ، 2006ء میں اچانک دل کا دررہ پڑنے پر دنیا سے کوچ کر گئے۔