محمد اسد وفات 23 فروری

یہودیت چھوڑ کو اسلام قبول کرنے والے محمد اسد (سابق نام: لیوپولڈ ویز) جولائی 1900ء میں موجودہ یوکرین کے شہر لیویو میں پیدا ہوئے جو اس وقت آسٹرو۔ ہنگرین سلطنت کا حصہ تھا۔

بیسویں صدی میں امت اسلامیہ کے علمی افق کو جن ستاروں نے تابناک کیا ان میں جرمن نو مسلم محمد اسد کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ اسد کی پیدائش ایک یہودی گھرانے میں ہوئی۔ 23 سال کی عمر میں ایک نو عمر صحافی کی حیثیت سے عرب دنیا میں تین سال گزارے اور اس تاریخی علاقے کے بدلتے ہوئے حالات کی عکاسی کے ذریعے بڑا نام پایا لیکن اس سے بڑا انعام ایمان کی دولت کی بازیافت کی شکل میں ان کی زندگی کا حاصل بن گیا۔ ستمبر 1926ء میں جرمنی کے مشہور خیری برادران میں سے بڑے بھائی عبدالجبار خیری کے دست شفقت پر قبول اسلام کی بیعت کی اور پھر آخری سانس تک اللہ سے وفا کا رشتہ نبھاتے ہوئے اسلامی فکر کی تشکیل اور دعوت میں 66 سال صرف کرکے بالآخر 1992ء میں خالق حقیقی سے جا ملے۔
ابتدائی زندگی
لیوپولڈ ویز کے اہل خانہ نسلوں سے یہودی ربی تھے لیکن ان کے والد ایک وکیل تھے۔ محمد اسد نے ابتدائی عمر میں ہی عبرانی زبان سیکھ لی تھی۔ بعد ازاں ان کے اہل خانہ ویانا منتقل ہو گئے جہاں 14 سال کی عمر میں انہوں نے اسکول سے بھاگ کر آسٹرین فوج میں شمولیت کی کوشش کی تاکہ پہلی جنگ عظیم میں شرکت کرسکیں تاہم ان کا خواب آسٹرین سلطنت کے ٹوٹنے کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔ جنگ کے بعد انہوں نے جامعہ ویانا سے فلسفہ اور تاریخ فن میں تعلیم حاصل کی لیکن یہ تعلیم بھی ان کی روح کی تشفی کرنے میں ناکام رہی۔

1920ء میں ویانا چھوڑ کر وسطی یورپ کے دورے پر نکل پڑے اور کئی چھوٹی بڑی نوکریاں کرنے کے بعد برلن پہنچ گئے جہاں انہوں نے صحافت کو منتخب کیا اور جرمنی اور یورپ کے مؤقر ترین روزنامے “Frankfurter Zeitung” میں شمولیت اختیار کی۔ 1922ء میں وہ بیت المقدس میں اپنے چچا سے ملاقات کے لیے مشرق وسطی روانہ ہوئے۔

قبول اسلام
23 سال کی عمر میں عرب دنیا میں ٹرین میں سفر کے دوران میں ایک عرب ہم سفر نے لیو پولڈویز کو جانے بغیر اسے کھانے میں شرکت کی دعوت دی تو یہ خود پسند اور اپنی ذات کے خول میں گم مغربی دنیا کے اس نوجوان کے لیے بڑا عجیب تجربہ تھا۔ پھر اس نے عرب معاشرے میں باہمی تعلقات، بھائی چارے، محبت اور دکھ درد میں شرکت کو دیکھا تو حیران رہ گیا اور وہیں سے دل اسلام کی جانب راغب ہو گیا۔

مشرق وسطی سے واپسی کے بعد جرمنی میں قیام کے دوران میں حسبِ ذیل واقعہ کے مشرف باسلام ہوگئے۔ ایک دن وہ اپنی بیوی کے ساتھ برلن کی زیر زمین ٹرین سے سفر کر رہے تھے، تو انھوں نے ٹرین میں بیٹھے افراد پر نظر ڈالی جو بظاہر خوشحال اور متومل نظر آ رہے تھے۔ لیکن ان کے چہروں پر بے اطمنانی اور حرماں نصیبی کے آثار دیکھے جس کو ‘خوشحال بے چینی’ کہا جا سکتا ہے۔ انھوں نے اپنی بیوی کو بھی اس بات کی طرف متوجہ کیا۔ تو انھوں نے بھی ایسا ہی محسوس کیا جب وہ گھر واپس ہوءے تو اتفقا ان کی نظر قرآن مجید پر پڑی۔ وہ اس کو بند کر کے دوسری جگہ رکھنا چاہتے تھے تو ان کی نظر اس آیت پر پڑھی “تم کو بہتات کی حرص نے غفلت میں رکھا۔ حتیٰ کہ تم (اپنی اپنی) قبروں کی زیارت کرو۔ تم جان لو گے، بے شک تم جان لوگے، پھر بے شک تم جان لو گے (قرآن سورہ تکاثر 102) اور قبول اسلام کے لیے دروازہ کھل گیا۔ وہ ایک لمحہ کے لیے گُم صُم ہو گئے۔ ان کو یقین ہو گیا کہ قرآن مجید کسی انسان کی حکمت اور دانائی کا نتیجہ نہیں۔ انہیں قرآن مجید کے اندر محمد Mohamed peace be upon him.svg سے زیادہ گہری اور اونچی آواز سنائی دی۔ وہ اپنے ایک ہندوستانی مسلمان دوست کے پاس گئے اور دو گواہوں کی موجودگی میں کلمہ پڑھا۔ ان کے دوست نے ان کا نام محمد اسد تجویز کیا۔

اس کے بعد ان کی اہلیہ ایلسا نے بھی اسلام قبول کر لیا۔ محمد اسد نے اخبار کی نوکری چھوڑ کر حج بیت اللہ کا قصد کیا۔

محمد اسد نے ایک جگہ لکھا کہ “اسلام اس کے دل میں بس ایک چور کی طرح خاموشی سے داخل ہوجاتا اور پھر اس دل کو اپنا گھر بنالیتا ہے۔ چور کی تمثیل یہاں ختم ہوجاتی ہے۔ چور چپکے چپکے داخل ہوتا ہے مگر کچھ لے کر چپکے چپکے نکل جاتا ہے۔ اسلام داخل تو چپکے چپکے ہی ہوتا ہے لیکن کچھ لینے کے لیے نہیں، کچھ دینے کے لیے اور پھر ہمیشہ اسی گھر میں رہنے کے لیے۔”

انہوں نے اسلامی دنیا کو ہی اپنا مسکن بنایا، انہوں نے مغرب سے دین کا ناتا ہی نہیں توڑا بلکہ جغرافیائی سفر کیا پھر اسی دنیا کا حصہ ہی بن گیا جس نے اسے مقناطیس کی طرح اپنی طرف کھینچا۔

حج بیت اللہ
بیت اللہ پر پہلی نظر پڑنے کے 9 دن بعد اسد کی زندگی ایک نئے موڑ پر آگئی، ایلسا خالق حقیقی سے جا ملیں۔ بعد ازاں اسد نے مکہ میں قیام کے دوران شاہ فیصل سے ملاقات کی جو اس وقت ولی عہد تھے اور بعد ازاں سعودی مملکت کے بانی شاہ عبدالعزیز السعود سے ملاقات کی۔ انہوں نے مکہ و مدینہ میں 6 سال گزارے اور عربی، قرآن، حدیث اور اسلامی تاریخ کی تعلیم حاصل کی۔

علامہ اقبال سے ملاقات اور انگریزی رسالہ کا اجراء
1932ء میں وہ ہندوستان آ گئے اور شاعر مشرق علامہ محمد اقبال سے ملاقات کی۔ ہندوستان میں علامہ اقبال سے ملاقات ہوئی تو اپنے آئندہ سفر کے ارادے کو ترک کیا اور علامہ کے ساتھ فکر اسلامی کی تعمیر نو کا کام کیا۔ ‘عرفات’ کے نام سے ایک رسالہ (انگریزی) جاری کیا۔

صحیح بخاری کا ترجمہ
دسمبر 1935ء کے لگ بھک صحیح بخاری کے انگریزی ترجمہ کا کام کیا۔ لیکن مالی وسائل کی عدم فراہمی کی وجہ سے یہ کام رک گیا۔ پھر سر اکبر حیدر آبادی(وزیر اعظم حکومت حیدرآباد)کی توجہ اور دلچسپی سے آصف جاہ سابع نے صحیح بخاری کے انگریزی ترجمہ کی منظوری دی اور نواب صاحب بھوپال نے ‘عرفات’ پبلی کیشنز کو ٹائپ مہیا کئے۔ اس طرح 1938ء میں صحیح بخاری کے مجوزہ چالیس حصوں کے منجملہ پانچ حصے اعلیٰ حضرت میر عثمان علی خان کے انتساب کے ساتھ شائع ہوئے۔بقیہ کام قید فرنگ، تقسیم ہند اور مسودات کے گم ہوجانے کی وجہ سے مکمل نہ ہو سکا۔

گرفتاری
ستمبر 1939ءمیں دوسری جنگ عظیم کے آغاز کے دوسرے ہی دن ان کودشمن شہری قرار دے کر گرفتار کر لیا گیا
۔ محمد اسد کو 6 سال بعد، 1945ء میں رہائی ملی۔

پاکستان آمد
1947ء میں قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان آ گئے اور نئی ریاست کی نظریاتی بنیادوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ انہیں پہلا پاکستانی پاسپورٹ جاری کیا گیا۔ بعد ازاں انہیں پاکستان کی وزارت خارجہ کے شعبہ مشرق وسطی میں منتقل کر دیا گیا جہاں انہوں نے دیگر مسلم ممالک سے پاکستان کے تعلقات مضبوط کرنے کا کام بخوبی انجام دیا۔ انہوں نے 1952ء تک اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے سفیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔

انتقال
محمد اسد نے اپنی اسلامی زندگی کے 66 سال عرب دنیا، ہندوستان، پاکستان اور تیونس میں گزارے اور آخری ایام میں اس کا قیام اسپین کے اس علاقے میں رہا جو اندلس اور عرب دنیا کا روحانی و ثقافتی حصہ تھا بلکہ آج بھی اس کی فضائیں باقی اسپین سے مختلف اور عرب دنیا کے ہم ساز ہیں۔

محمد اسد 1955ء میں نیویارک چھوڑ کر اسپین میں رہائش پزیر ہوئے۔ 17 سال کی کاوشوں کے بعد 80 برس کی عمر میں انہوں نے اپنی زندگی کے سب سے بڑے خواب “قرآن پاک کی انگریزی ترجمہ و تفسیر” کو تکمیل تک پہنچایا۔ وہ 23 فروری 1992ء کو اسپین میں ہی خالق حقیقی سے جا ملے۔

محمد اسد: قیمتی ہیرا
ایک دوسرے جرمن نو مسلم ولفریڈ ہوفمین نے ان کے لیے کہا تھا کہ محمد اسد اسلام کے لیے یورپ کا تحفہ ہیں۔ جبکہ جماعت اسلامی کے بانی مولانا سید ابو الاعلی مودودی نے 1936ء میں محمد اسد کے بارے میں تاریخی جملہ لکھا تھا کہ “میرا خیال یہ ہے کہ دور جدید میں اسلام کو جتنے غنائم یورپ سے ملے ہیں ان میں یہ سب سے زیادہ قیمتی ہیرا ہے”۔
تصانیف

قرآن محمد اسد کی فکر کا محور رہا اور حدیث و سنت کو وہ اسلامی نشاۃ ثانیہ کی اساس سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے تمام بڑے قیمتی مضامین کے باوصف ان کا اصل علمی کارنامہ قرآن پاک ترجمہ و تفسیر اور صحیح بخاری کے چند ابواب کا ترجمہ و تشریح ہے۔ ان کی معروف کتب میں Islam at the Crossroads، Road to Mecca اور The Principles of State and Government in Islam شامل ہیں۔

Road to Mecca علمی، ادبی اور تہذیبی ہر اعتبار سے ایک منفرد کارنامہ اور صدیوں زندہ رہنے والی سوغات ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک کتاب This Law of Ours بھی تحریر کی۔

محمد اسد اور پاکستان
محمد اسد کا دیگر مسلم ممالک کی طرح پاکستان سے انتہائی گہرا اور قریبی تعلق تھا اور وہ اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے سفیر بھی رہے۔

محمد اسد پاکستان اور تحریک پاکستان کے اصل مقاصد اور اہداف کا بڑا واضح ادراک رکھتے تھے اور آج کی پاکستانی قیادت کے لیے اسد کی تحریروں میں بڑا سبق اور پاکستانی قوم کے لیے عبرت کا پیغام ہے۔ محمد اسد نے فروری 1947ء میں اپنے پرچے “عرفات” میں تصور پاکستان کو اس طرح بیان کیا اور ماضی میں ابھرنے والی کئی اصلاح تحریکوں کا ذکر کرتے ہوا لکھا کہ : “تحریک پاکستان اس طرح کی تمام صوفیانہ تحریکوں سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ یہ کسی روحانی رہنما پر لوگوں کے اعتقاد سے جذبہ و توانائی حاصل نہیں کرتی، بلکہ اس کا یہ ادراک، جو بیشتر معاملات میں ہدایت دیتا ہے اور علمی حلقوں میں صاف صاف سمجھا جاتا ہے کہ اسلام (پورے نظام زندگی کی تعمیر نو کی) ایک معقول تدبیر ہے اور اس کی سماجی و اقتصادی اسکیم انسانیت کو درپیش تمام مسائل کا حل فراہم کرسکتی ہے اور اس کا واضح تقاضا یہ ہے کہ اس کے اصولوں کی پیروی کی جائے۔ نظریۂ پاکستان کا یہ علمی پہلو اس کا سب سے اہم پہلو ہے۔ اس کی تاریخ کا ہم کھلی آنکھوں سے مطالعہ کریں تو ہم یہ پائیں گے کہ اپنے اولین دور میں اسلام کی فتح کی وجہ اس کی انسان کی فہم، دانش اور عقل عام سے اپیل ہے۔ تحریک پاکستان، جس کی نظیر جدید مسلم تاریخ میں موجود نہیں ہے، ایک نئے اسلامی ارتقا کا نقطۂ آغاز ہوسکتی ہے، اگر مسلمان یہ محسوس کریں اور جب پاکستان حاصل ہو جائے تب بھی محسوس کرتے رہیں کہ اس تحریک کا حقیقی تاریخی جواز اس بات میں نہیں ہے کہ ہم اس ملک کے دوسرے باشندوں سے لباس، گفتگو یا سلام کرنے کے طریقے میں مختلف ہیں یا دوسری آبادیوں سے جو ہماری شکایات ہیں اس میں یا ان لوگوں کے لیے جو محض عادتا خود کو مسلمان کہتے ہیں، زیادہ معاشی مواقع اور ترقی کے امکانات حاصل کریں، بلکہ ایک سچا اسلامی معاشرہ قائم کرنے میں ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسلام کے احکامات کو عملی زندگی میں نافذ کرنا ہے”۔ (عرفات، فروری 1947ء صفحہ 863 تا 865)

اسی رسالے میں آگے لکھتے ہیں کہ “ہم پاکستان کے ذریعے اسلام کو صرف اپنی زندگیوں میں ایک حقیقت بنانا چاہتے ہیں۔ ہم اس لیے پاکستان چاہتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک اس قابل ہو کہ لفظ کے وسیع تر مفہوم میں ایک سچی اسلامی زندگی بسر کرسکے۔ اور یہ بالکل ناممکن ہے کہ کوئی شخص اللہ کے رسول کی بتائی ہوئی اسکیم کے مطابق زندگی گزار سکے جب تک پورا معاشرہ شعوری طور پر اس کے مطابق نہ ہو اور اسلام کے قانون کو ملک کا قانون نہ بنائے”(عرفات، فروری 1947ء صفحہ 918)

آخری پیرے میں انہوں نے پوری تحریک پاکستان کا جوہر اور ہدف بیان کرتے ہوئے لکھا کہ “مسلمان عوام وجدانی طور پر پاکستان کی اسلامی اہمیت کو محسوس کرتے ہیں اور واقعی ایسے حالات کی خواہش رکھتے ہیں جن میں معاشرے کے ارتقا کا نقطہ آغاز “لا الہ الا اللہ” ہو”۔ (عرفات، فروری 1947ء صفحہ 925)