ڈاکٹر طاہر القادری پیدائش 19 فروری

محمد طاہر القادری 19 فروری، 1951ء کو جھنگ میں پیدا ہوئے۔ آپ تحریک منہاج القرآن کے بانی رہنما ہیں، جو 1980ءسے قرآن و سنت کے افکار کے ذریعے فروغ علم و شعور، اصلاح احوال امت اور ترویج و اقامت دین کے لیے مصروف عمل ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی تحریک کے قیام کا مقصد ان الفاظ مین بیان کیا: “تحریک منہاج القرآن کے بپا کیے جانے کا مقصد اولیں غلبہ دین حق کی بحالی اور امت مسلمہ کے احیاء و اتحاد کے لیے قرآن و سنت کے عظیم فکر پر مبنی جمہوری اور پرامن مصطفوی انقلاب کی ایک ایسی عالمگیر جدوجہد ہے جو ہر سطح پر باطل، طاغوتی، استحصالی اور منافقانہ قوتوں کے اثر و نفوذ کا خاتمہ کر دے۔”

آپ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن، عوامی تعلیمی منصوبہ اور منہاج یونیورسٹی کے بانی ہیں اور پاکستان عوامی تحریک نامی سیاسی جماعت کے بھی بانی چیئرمین ہیں۔

آپ شیخ سید طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی کے مرید ہیں، جو سلسلہ نسب میں شیخ سید عبدالقادر جیلانی کی 17 ویں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی 28 ویں پشت سے ہیں۔
خاندانی پس منظر
ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جھنگ کے ایک معروف عالم دین ڈاکٹر فرید الدین قادری کے بیٹے ہیں۔ ان کے آباؤاجداد سیال خاندان سے تھے، جو تحصیل و ضلع جھنگ کے چنیوٹ روڈ پر واقع گاؤں کھیوا کے نواب تھے۔ ان میں سے دو بھائیوں نے اپنی جائداد تیسرے بھائی کے سپرد کر کے خود درویشی اختیار کی، نواب جمعہ خان ڈیرہ اسمعیل خان کی طرف اور نواب احمد یار خان (جو ڈاکٹر طاہرالقادری کے اجداد میں سے تھے) جھنگ صدر جا آباد ہوئے۔

ڈاکٹر فریدالدین 1918ء کو جھنگ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے عربی و فارسی ادب، فقہ اسلامی اور تصوف و روحانیت کے حصول کے لیے دنیابھر کا سفر کیا۔ انہوں نے لکھنؤ (بھارت) سے طب یونانی میں تخصص کیا اور انہیں 1940ء میں پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے گولڈمیڈل دیا گیا۔ انہوں نے لکھنؤ، حیدرآباد، دہلی، دمشق، بغداد اور مدینہ منورہ سے اکتساب علم کیا۔ وہ دہلی اور حیدرآباد میں حکیم نابینا انصاری کے ساتھ بھی شریک رہے۔ وہ نقیب الاشراف سید ابراہیم سیف الدین الگیلانی کے مرید تھے، جو بغداد سے بمبئی میں آن بسے تھے۔ انہیں علامہ محمد اقبال کے ساتھ گہرا شغف تھا اور وہ قیام پاکستان کی تحریک میں قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ بھی شریک سفر رہے۔ وہ سعودی عرب کے عبدالعزیز ابن سعود کے طبی مشیر بھی رہے۔ ان سے مروی ہے کہ وہ 1948ء میں سعودی عرب گئے تو بیت اللہ کے پہلو میں آخر شب اللہ تعالٰی سے دعا کی کہ انہیں ایسا بیٹا عطا فرما جو اسلام کی خدمت کرے، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں خواب میں طاہر کی ولادت کی خوشخبری دی تھی۔ ڈاکٹر فریدالدین نے 2 نومبر 1974ء کو جھنگ میں 56 سال کی عمر میں انتقال کیا۔[6]

سوانح
ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اوائل عمر ہی سے انقلابی رجحانات کے حامل تھے۔ ان کے والد چاہتے تھے کہ انکا یہ ہونہار بیٹا نہ صرف روایتی مذہبی علوم میں ماہر ہو بلکہ جدید علوم و فنون میں بھی طاق ہو۔ لہذا انہوں نے بیٹے طاہر کے لیے بیک وقت دینی و دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم کا اہتمام کیا۔ یہ معمول از اول تا آخر جاری رہا۔

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری امت مسلمہ اور بالخصوص پاکستان کے حالات پر شدید دکھی رہتے تھے۔ امت مسلمہ کی زبوں حالی ان کو ہردم پریشان کیے رکھتی تھی۔ اسی اثنا میں اکتوبر 1971ء میں انہیں عظیم مفکر ڈاکٹر ب رہان احمد فارقی کی صحبت ملی، جس نے ان کی فکر کو پروان چڑھانے میں بہت ہی نمایاں کردار ادا کیا۔

1971ء سے 1973ء کے زمانے میں ڈاکٹر طاہر القادری نے مختلف مسلم و غیر مسلم مفکرین کے انقلابی افکار کا تاریخی مطالعہ کیا۔ مسلم مفکرین میں امام غزالی، شاہ ولی اللہ دہلوی، مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی، مولانا عبید اللہ سندھی وغیرہم اور غیر مسلم مفکرین میں کارل مارکس، فریڈرک اینجلس، لینن، سٹالن اور ماؤزے تنگ وغیرہم شامل ہیں۔ اس مطالعے سے ان پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ انقلابی فکر کے حوالے سے کامیابی کا جو دوٹوک یقین غیر مسلم مفکرین کے ہاں نظر آتا ہے، وہ اکثر مسلم مفکرین کے ہاں مفقود ہے۔ اس پر انہوں نے انقلابی زاویہ نگاہ سے قرآن و حدیث کا ازسرنو گہرا مطالعہ شروع کیا، جس کے نتیجے میں قرآن مجید اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو انقلاب کی کامیابی کی حتمی اور دوٹوک ضمانت مہیا کردی، جس سے انقلاب پر انکا ایقان پختہ تر ہو گیا۔

چنانچہ انہوں نے ایک بار قرآن کریم کو تھام کر اور دوسری بار اپنے شیخ طریقت سید طاہر علاؤ الدین القادری البغدادی کے دست اقدس پر باضابطہ بیعتِ انقلاب کرکے، اپنے رب اور آقائے کریم سے اپنی زندگی کو عظیم عالمی انقلاب کے لیے وقف کردینے کا پختہ عہد کر لیا۔ یہ بیعتِ انقلاب مورخہ 26 جولائی 1972ء بمطابق 14 جمادی الثانی 1392ھ ساڑھے بارہ بجے بعد دوپہر بمقام دربارِ غوثیہ شارع الگیلانی کوئٹہ میں منعقد ہوئی۔ ان کے شیخِ طریقت نے انقلاب سے متعلق تفصیلی ہدایات دیں اور ان کے لیے عزم واستقلال، جرآت و ہمت اور کامیابی و کامرانی کی دعا فرمائی۔[7]

ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی جدوجہد کا آغاز 1976ء میں جھنگ کی سطح پر نوجوانوں کی تنظیم محاذ حریت قائم کرکے کیا، جسے بعد ازاں 1980ء میں لاہور سے تحریک منہاج القرآن کے نئے نام کے ساتھ بدل دیا گیا۔ اس دوران میں ڈاکٹر صاحب نے نصنیف و تالیف اور دروس قرآن کا سلسلہ جاری رکھا، جس کے ذریعے ان کے افکار پورے ملک اور پھر رفتہ رفتہ دوسرے ممالک میں بھی عام ہوتے گئے۔ اسی دوران میں وہ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں اسلامک لاءپر لیکچر دیتے رہے۔ پھر وہ فیڈرل منسٹری آف ایجوکیشن کے ارکان بنے۔ بعد ازاں فیڈرل شریعت کورٹ میں جیورسٹ کنسلٹنٹ مقرر ہوئے۔ جب ان کی شاندار صلاحیتوں کی وجہ سے ان کی شہرت مزید بڑھی تو ٹی وی پر ان کے پروگرام فہم القرآن نے بھی ان کی مقبولیت میں بے انتہا اضافہ کیا۔

ان کے سیاسی مخالفین کہتے ہیں کہ ان کی اس ترقی کا سارا کریڈٹ نواز شریف کی اتفاق مسجد میں ان کے خطیب مقرر ہونے کا ہے۔ ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ جب انکا پروگرام فہم القرآن ٹی وی پر شروع ہوا تو اس وقت نواز شریف ابھی وزیر اعلیٰ بھی نہیں بنے تھے۔ اور ادارہ منہاج القرآن بھی اتفاق مسجد سے تعلق قائم ہونے سے بہت پہلے قائم ہوچکا تھا۔