ندا فاضلی وفات 8 فروری

ندا فاضلی اردو کے مشہور شاعر، فلمی گیت کار اور مکالمہ نگار گزرے۔ ان کا پورا نام مقتدا حسن ندا فاضلی ہے۔ لیکن ندا فاضلی کے نام سے مشہور ہوئے۔ ان کی پیدائش 12 اکتوبر، 1938ء کو دہلی میں ہوئی۔
ندا فاضلی دہلی میں پیدا ہوئے۔گوالیارمیں تعلیم پائی۔ ان کے والد ایک شاعر تھے۔ تقسیم کے بعد ان کے والدین اور خاندان کے افراد پاکستان چلے گئے، لیکن فاضلی بھارت ہی میں رہ گئے-

پیشہ ورانہ زندگی

مشہور اردو شاعر ندا فاضلی 28 جنوری،2014ء کو چندی گڑھ میں منعقدہ جشنِ ہریانہ میں نظم سناتے ہوئے
بچپن میں ہندو مندر سے ایک بھجن کی آواز سنی اور شاعری کی طرف مرغوب ہوئے۔ انسانیت پر انہوں نے شاعری کی اس دور میں مرزا اسداللہ خاں غالب، میر تقی میر سے متاثر ہوئے، میرا اور کبیر سے بھی۔ انہوں نے ایلئیٹ، گگول، اینٹن چکوف (انتون چیخوف) اور ٹکاساکی کو بھی پڑھا اور اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کا اضافہ کیا۔

بالی وڈ

ابتدائی دنوں میں وہ ملازمت کی تلاش میں ممبئی آئے اور دھرم یُگ (رسالہ) اور بلٹز کے لیے لکھتے رہے۔ ان کا شاعرانہ لہجہ لوگوں کو پسند آیا اور فلم بنانے والوں کی نظر ان پر پڑی ساتھ ساتھ ہندی اور اردو ادب والوں کی۔ مشاعروں میں بلائے جانے لگے۔

کئی گلوکاروں نے اور غزل گانے والوں نے ان کی غزلیں، نظمیں اور گیت گائے، جس سے ان کو شہرت ملی۔

ان کے شہرہ یافتہ غزلوں میں، ” دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونہ ہے، مل جائے تو مٹی ہے کھوجائے تو سوناہے” مشہور ہے۔

فلمی گیتوں میں “آ بھی جا” ( سُر – زندگی کا نغمہ)، تو اس طرح سے میری زندگی میں شامل ہے ( فلم – آپ تو ایسے نہ تھے) “ہوش والوں کو خبر کیا زندگی کیا چیز ہے” (فلم – سر فروش) وغیرہ بہت مشہور ہوئے ۔

کیریر
انہوں نے 1960ء کے دور کے شعرا پر تنقیدی مضامین لکھے لکھے، جس کا عنوان “ملاقاتیں“ تھا۔بالی وڈ کے فلم ہدایتکار کمال امروہی نے ندا فاضلی سے مل کر کہا کہ فلم رضیہ سلطانہ کے لیے گیت لکھیں، جب کہ یہ گیت جاں نثار اختر کو لکھنا تھا، لیکن اسی دوران میں ان کی وفات ہو گئی تھی۔ انہوں نے اس فلم کے دو نغمے لکھے اور کافی مشہور بھی ہوئے (1983ء)۔ اس طرح انہوں نے فلمی دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر پائے۔

ان کے مشہور فلمی نغموں میں فلم آپ تو ایسے نہ تھے، گڈیا، شامل ہیں۔ انہوں نے کئی ٹی۔ وی۔ سیرئیلس کے لیے بھی نغمے اور گیت لکھے۔ سائلاب، نیم کا پیڑ، جانے کیا بات ہوئی اور جیوتی کے لیے ٹائٹل نغمے لکھے۔

گلوکارہ کویتا سبرامنیم اور جگجیت سنگھ نے بھی غزلیں گائیں اور کئی البم بھی بنے۔

حال ہی میں انہوں نے بی۔ بی۔ سی۔ ہندی ویب سائٹ کے لیے کئی عصری معاملات اور ادب پر مضامین لکھے۔ یہ اکثر اپنی گفتگو میں مرزا اسد اللہ خان غالب کا ذکر کیا کرتے ہیں۔

وفات
اردو کے مشہور شاعر ندا فاضلی کی وفات 8 فروری 2016 کو ممبئی میں دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی۔

انداز اور لہجہ
ہم لبوں سے کہہ نہ پائے ان سے حال دل کبھی

اور وہ سمجھے نہیں یہ خاموشی کیا چیز ہے

— ندا فاضلی – فلم سرفروش کے لیے لکھی ایک غزل کا شعر۔

ان کی شاعری فنکاروں جیسی ہے۔ یہ جب اپنا کلام لکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ کسی مصور کی تصویر ہے یا پھر کسی موسیقی کار کی موسیقی۔

1969ء میں انہوں نے اپنا مجموعہ کلام 1969ء میں شائع کروایا۔ ان کے کلام میں بچپن، غم انگیزی، فطری عناصر، زندگی کا فلسفہ، انسانی رشتے، گفت اور فعل میں تفریق وغیرہ موضوعات پائے جاتے ہیں۔

مذہبی رواداری – کوشش
تقسیم ہند سے بالکل اتفاق نہیں کرنے والے فاضلی، مذہب کے نام پر فسادات، سیاست دانوں اور فرقہ پرستوں پر جم کر تنقید کرتے ہیں۔ 1992 کے فسادات کے دوران، تحفظی وجوہات کی بنا پر انہوں نے اپنے ایک دوست کے گھر پناہ لی تھی۔ مذہبی رواداری پر کام کرنے کے لیے انہیں بہت سارے اعزازات ملے۔ انہوں نے اب تک 24 کتابیں لکھیں۔ مہاراشٹر حکومت کی جانب سے میر تقی ایوارڈ ملا۔ مختلف صوبائی حکومتوں کے ٹکسٹ بکس میں ان کی سوانح اور تخلیقات بھی ہیں۔[