پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ قادیانی تھے پیدائش 6 فروری

سر محمد ظفر اللہ خان تحریک پاکستان کے سرگرم رکن، پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ تھے۔
محمد ظفر اللہ خان مذہبی طور پر احمدیہ جماعت سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے خود مرزا غلام احمد قادیانی کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور ان کے احمدی خلفاء کے معتمد رہے۔ وہ جماعت احمدیہ کے اہم عہدوں پر فائز رہے اور مذہبی امور پر متعدد کتب کے مصنف ہیں۔1953 میں ہونے والی احمدیہ مخالف تحریک کے اہم مطالبات میں سے ایک ظفر اللہ خان کے استعفا کا مطالبہ بھی تھا۔ اس تحریک کے نتیجہ میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ لاہور میں فوجی قانون لاگو ہوا۔ اس تحریک کے کئی سال بعد ظفر اللہ خان نے 1958 میں سعودی بادشاہ کے شاہی مہمان کے طور پر عمرہ ادا کیا اور پھر 1967 میں دوبارہ مکہ مکرمہ سعودی عرب حاضر ہوکر حج کا فریضہ بھی سر انجام دیا۔
سر محمد ظفر اللہ خان کا آبائی گاوں ڈسکہ تھا۔ ان کے والد نصر اللہ خان ساہی جاٹ قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے اور پیشہ کے لحاظ سے وکیل تھے۔ ان کی والدہ باجوہ جاٹ خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ ظفر اللہ خان اپنی والدہ سے بہت متاثر تھے اور ان کے متعلق ایک کتاب “میری والدہ “کے نام سے لکھی۔ ان کی پیدائش 6 فروری 1893 کو ہوئی۔
ان کے بطور وزیر خارجہ کام کے دوران میں ہی لاہور میں 1953 میں فسادات برپا ہوئے جن میں مذہبی جماعتوں نے ان کے استعفا کا مطالبہ کیا۔ ان فسادات کے نتیجہ میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ لاہور میں فوجی قانون یعنی مارشل لا لگایا گیا۔ ان فسادات پر عدالتی کمیشن بنایا گیا جو منیر عدالتی کمیشن کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کمیشن کی رپورٹ میں فسادات کی وجوہ کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور مؤلانا مودودی کو موت کی سزا سنادی ۔
ایک لمبا عرصہ ہالینڈ یعنی نیدرلینڈ اور برطانیہ میں رہائش پذیر رہنے کے بعد واپس پاکستان چلے آئے اور لاہور میں رہائش اختیار کی۔ جہاں 1 ستمبر 1985 کو وفات پائی۔ ان کی تدفین احمدیہ جماعت کے مرکز ربوہ میں واقع بہشتی مقبرہ میں ہوئی۔