موہن داس گاندھی وفات 30 جنوری

موہن داس کرم چند گاندھی 2 اکتوبر، 1869ء تا 30 جنوری 1948ء) بھارت کے سیاسی اور روحانی رہنما اور آزادی کی تحریک کے اہم ترین کردار تھے۔ انہوں نے ستیہ گرہ اور اہنسا (عدم تشدد) کو اپنا ہتھیار بنایا۔ ستیہ گرہ، ظلم کے خلاف عوامی سطح پر منظم سول نافرمانی ہے جو عدم تشدد پر مبنی ہے۔ یہ طریقئہ کار ہندوستان کی آزادی کی وجہ بنی۔ اور ساری دنیا کے لیے حقوق انسانی اور آزادی کی تحاریک کے لیے روح رواں ثابت ہوئی۔ بھارت میں انھیں احترام سے مہاتما گاندھی اور باپو کہا جاتا ہے۔ بھارت میں وہبابائے قوم(راشٹر پتا) کے نام سے بھی مشہور ہیں۔ گاندھی کی یوم پیدائش (گاندھی جینتی) بھارت میں قومی تعطیل کا درجہ رکھتا ہے ا ور دنیا بھر میں یوم عدم تشدد کی طور پر منایا جاتا ہے۔ 30 جنوری، 1948ء کو ایک ہندو قوم پرست نتھو رام گوڈسے نے ان کا قتل کر دیا۔
گاندھی کےعقائد
حق کی تلاش
گاندھی نے اپنی زندگی کو سچّائی (حق) کی تلاش کے لیے نذر کر دیا۔ انہوں نے اسے اپنی غلطیوں اور تجربات سے حاصل کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اپنی سوانح عمری کو “سچائی کے ساتھ میرے تجربات کی کہانی” (The Story of My Experiments with Truth) کا عنوان دیا۔

گاندھی نے کہا کہ انہوں نے سب سے اہم جنگ اپنی نفسیاتی خوف اور عدم تحفظ پر قابو پانے کے لیے لڑی۔ گاندھی اپنے عقائد کا خلاصہ ان الفاظ میں کیا، “خدا حق ہے”۔ انہوں نے اس بیان کو بعد میں “حق خدا ہے” سے تبدیل کر دیا۔ اس طرح، گاندھی کے فلسفہ میں حق (ستیا) “خدا” ہے۔

عدم تشدد
اگرچہ مہاتما گاندھی عدم تشدد کے اصول کے موجد تو نہیں تھے مگر، انہوں نے بڑے پیمانے پر اس کا سیاسی میدان میں استعمال پہلی بار کیا تھا۔ اہنسا (عدم تشدد) کا تصور بھارتی مذہبوں میں ایک طویل تاریخ ہے۔ ہندو، بدھ، جین، یہودی اور مسیحی مذاہب میں اس کا اعادہ ہے۔ گاندھی اپنی سوانح عمری “حق کے ساتھ میرے تجربات کی کہانی” میں اس فلسفہ اور زندگی کی راہ بتاتے ہیں۔ ذیل اقتباس ان کے سوانح عمری سے ماخوذ ہیں۔

” جب میں مایوس ہوتا، ممں یاد کرتا کہ پوری تاریخ میں سچ اور محبت کے راستہ ہمیشہ جیت ہوئی ہے۔ دنیا میں بڑے سے بڑے قاتل اور ظالم ہوۓ ہیں جو ایک وقت ناقابل شکست لگے، لیکن آخر میں وہ ہارے- اس کے بارے میں سوچنا، ہمیشہ۔ “
” “آنکھ کے لیے ایک آنکھ پورے دنیا کو اندھا بنا دیتا ہے۔” “
” “بہت سی وجوہات ہیں جن کے لۓ میں مرنے کے لیے تیار ہوں، لیکن کوئی وجہ نہیں جن کے لۓ میں قتل کرنے کے لیے تیار ہوں۔” “
سبزی خوری
نوجوان گاندھی نے تجسس میں گوشت خوری کی کوشش کی تھی۔ لیکن وہ اپنے علاقے کے ہندو اور جین سے متاثر ہو کر ہمیشہ سبزی خور رہے۔ اور سن بلوغ کو پہنچتے ہی پکے سبزی خور بن چکے تھے۔ انہوں نے اپنے قیام لندن میں اس پر کئی مقالے بھی لکھے جو لندن کے رسالہ “دی وجیٹیرین”(The Vegeterian) میں شائع ہوئے۔ انہوں نے اس پر ایک کتاب “سبزی خوری کے اخلاقی اصول” بھی تصنیف کی۔

اپنے کامیاب برہم آچاری ہونے کی وجہ بھی سبزی خوری کو بتاتے۔ جس کا ذکر انہوں نے اپنی آپ بیتی میں کیا ہے۔

گاندھی نے پھل خوری کا بھی تجربہ کیا۔ اپنی آپ بیتی میں اس کا ذکر کرتے ہوئے گاندھی نے کہا، “”میں نے صرف پھل کھا کر زندہ رہنے کا فیصلہ کیا اور وہ بھی سب سے سستے پھلوں سے … مونگ‌پھلی، کیلے، کھجور، نیبو اور زیتون کے تیل پر مشتمل کھانا”۔
نئی تعلیم، بنیادی تعلیم
گاندھی کی تعلیمی پالیسیوں کی جھلک نئی تعلیم سے ملتی ہے جس کا مطلب “تعلیم سب کے لیے” تھا۔ اس کے پیچھے وہ مذہبی اصول کارفرما تھا کہ کام اور علم کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ دراصل یہ نظام برطانوی نظام تعلیم اور نوآبادیاتی نظام کی مخالفت میں بنایا گیا تھا جس کی وجہ سے ہندوستانی بچوں کے لیے نظامِ تعلیم مشکل ہو جاتا تھا اور جسمانی کام سے نفرت پیدا ہوتی تھی اور ایک نیا طبقہ اشرافیہ پیدا ہو جاتا تھا اور انڈسٹریلائزیشن اور شہروں کو رخ کرنے کا رحجان پیدا ہوتا تھا۔

نئی تعلیم ایک روحانی اصول ہے جس کے مطابق علم کام سے جدا نہیں ہے۔ گاندھی نے اسی اصول پر “نئی تعلیم” کے نام سے ایک نئے تعلیمی نصاب کو فروغ دیا۔

گاندھی کے درس کے تین ستون یوں ہیں:

علم ایک کل زندگی مرحلہ ہے
علم کا سماجی کردار اور
علم ایک مکمل حکمت عملی ہے۔
گاندھی کے نزدیک آزاد ہندوستان کا مطلب ہزاروں کی تعداد میں خود کفیل اور خوشحال چھوٹی چھوٹی آبادیاں تھا جو خود مختار ہوں اور دوسروں سے الگ تھلگ کام کریں۔ گاندھی کے نظریے کے مطابق دیہات کی سطح پر خود کفالت اہمیت رکھتی تھی۔ سرودیا کی پالیسی کے مطابق گھریلو صنعتوں اور زراعت کی صورت حال بہتر بنا کر غربت کو ختم کیا جا سکتا تھا۔ گاندھی نے نہرو کے معاشی نمونے کو مکمل طور پر رد کیا جس میں روسی طرز پر صنعتی ترقی اہمیت رکھتی تھی۔ گاندھی کے ذہن میں مقامی آبادی اور ان کی ضروریات تھیں۔ گاندھی کی وفات کے بعد نہرو نے ہندوستان کو جدید بنایا اور ہیوی انڈسٹری کے علاوہ زراعت کو بھی جدید خطوط پر استوار کیا۔ مؤرخ پانڈی کتو کے مطابق “ہندوستان کی حکومت نے گاندھی نہیں بلکہ نہرو کی پالیسی کو اپنایا”۔ گاندھی کے مطابق “غربت بدترین تشدد ہے”۔
ادبی سرگرمیاں
گاندھی کو لکھنے کا جنون تھا۔ گاندھی کی ابتدائی تصانیف میں سے ایک ‘ہند سوراج‘ 1909ء میں گجراتی زبان میں چھپی۔ کئی دہائیوں تک گاندھی نے گجراتی اور ہندی کے علاوہ انگریزی اخبارات میں ادارت کے فرائض سر انجام دیے اور یہ سلسلہ جنوبی افریقا میں بھی جاری رہا۔ اس کے علاوہ گاندھی نے تقریباً ہر روز ہی مختلف اخبارات کے مدیران کو اور عام افراد کو خطوط لکھے

گاندھی کی ڈھیر ساری تصانیف میں ان کی اپنی سوانح حیات بھی شامل ہے جس کا نام (The Story of My Experiments with Truth) ہے۔ گاندھی نے اس کتاب کے پہلے ایڈیشن کو پورا کا پورا خرید لیا تاکہ اس کا دوسرا ایڈیشن چھپ سکے۔ دیگر سوانح حیات میں ‘جنوبی افریقا میں ستیہ گرہ‘، اپنی جدوجہد کے بارے کتابچہ ‘ہند سوراج‘ وغیرہ بھی لکھے۔ ان کا آخری مضمون معاشیات کے بارے تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے سبزی خوری، غذائیات اور صحت، مذہب، سماجی بدلاؤ وغیرہ پر بھی لکھا۔ گاندھی نے عموماً گجراتی میں لکھا لیکن ان کی کتب کے ہندی اور انگریزی تراجم بھی عام ملتے ہیں۔

گاندھی کی تمام کتب کو انڈین حکومت نے (The Collected Works of Mahatma Gandhi) کے نام سے 1960ء کی دہائی میں چھپوایا۔ اس کے کل صفحات کی تعداد 50.000 ہے اور 100 جلدوں میں چھاپی گئی ہیں۔