مظفر وارثی وفات 28 جنوری

مظفر وارثی موجودہ صدی کی چند گنی چنی آوازوں میں سے ایک اور عہد حاضر میں پاکستان کے نمایاں ترین شاعر اور نعت خواں ہیں۔ اردو کے عہدسازشاعروں کی اگرغیرجانبداری سے فہرست تیارکی جائے توان کے نام سے بچناناممکن ہے۔

مظفر وارثی (ولادت: 20 دسمبر 1933ء – 28 جنوری 2011ء) کا پیدائشی نام “محمد مظفر الدین احمد صدیقی” تھا۔ وہ برطانوی ہندوستان کے شہر میرٹھ (یو۔ پی) میں صوفی شرف الدین احمدچشتی قادری سہروردی کے ہاں پیدا ہوئے۔ مظفروارثی کانام مظف رہے۔ فاتح۔ وہ دنیائے سخن کے کئی ملک فتح کرچکے ہیں اورفتح وظفرکایہ سلسلہ جاری ہے۔ ان کے مداحوں اورعقیدت مندوں کی تعدادگنناناممکن ہے۔ وہ پچھلے پچاس برسوں سے عروس ِ سخن کا بناؤ سنگھار کر رہے ہیں۔ لکھتے اس لیے نہیں کہ وہ ایک لکھاری ہیں بلکہ اس لیے کہ ان پرآنے والی نجانے کتنی نسلوں اورصدیوں کی راہ نمائی کاقرض ہے۔ احسان دانش نے کہاتھاکہ اگلازمانہ مظفر وارثی کاہے۔ آپ کااپناایک جداگانہ شعری نظام ہے جوآپ کو دیگر شعرا ممتاز کرتا ہے۔ علم وسخن اپنی ہرشکل،ہرصنف میں آپ کا اوڑھنا بچھونابلکہ آپ کے وجود کا حصہ ہیں۔
اہم تصانیف

برف کی ناؤ
بابِ حرم
لہجہ
نورِ ازل
الحمد
حصار
لہو کر ہریالی
ستاروں کی آبجو
کعبہِ عشق
کھلے دریچے بند ہوا
دل سے درِ نبی تک
ظلم نہ سہنا
کمند