چمچہ گیری شاعر مشکور حسین

جیسے ہی بندھی سونے کی زنجیر گدھوں سے
ہونے لگا ہر شخص بغلگیر گدھوں سے
مت پوچھئے کیا کیف کا عالم ہوا طاری
وابستہ ہوئی اپنی جوتوقیر گدھوں سے
چاپلوس انسان اپنی زبان سے ایک وقت میں 2کام لیتا ہے یعنی تلوار کا بھی اور ڈھال کا بھی۔جو معرکے بندوق سے نہیں ہوپاتے وہ چاپلوسی سے انجام دے لیتے ہیں۔پرانے وقتوں میں قصیدہ گو اپنے ممدوح کی شاعری کو شجاعت اور بہادری ظاہر کرنے پر بہادر الملک کا خطاب اور نشاط پور کی سپہ سالاری حاصل کرتے تھے۔ خوشامد ایک مہلک میٹھا زہر ہے جس کا احساس نہیں ہوتا لیکن یہ چپکے چپکے اپنا اثر دکھاتی ہے۔ بقولِ شاعر:
خوشامد بڑے کام کی چیز ہے
زمانے میں آرام کی چیز ہے
خوشامد پہ کچھ خرچ آتا نہیں
’’خوشامد کے سودے میں گھاٹا نہیں‘‘
اب آئیے چمچہ گیری پر، ویسے تو چمچے کا لفظی معانی ڈوئی ، کفچہ یا کفگیر کے ہیں اگریہ چھوٹی جسامت کا ہو تو چمچی کہلاتا ہے ۔ چمچہ گیری کسی آرٹ سے کم ہرگزنہیں،بقول شاعر :
زندگی میں اس قدر بے چارگی اچھی نہیں
ہر قدم پر چارۂ تدبیر ہونا چاہئے
صاحب توقیر ہونے سے تو کچھ ملتا نہیں
آدمی کو صرف چمچہ گیر ہونا چاہئے
چمچے کے بارے میں شاعر کے خیالات پیش ہیں:
بہت مجھ کو لگتا ہے پیارا کہ جب
مرے سامنے دم ہلاتا ہے چمچہ
اسی کے سبب سے ہے نفرت دلوں میں
کہ آپس میں ہر دم لڑاتا ہے چمچہ
زمانے کی پھٹکار اس میں ہو پھر بھی
سرِ انجمن دندناتا ہے چمچہ