جناح کے تین جملے

” جناح کے تین پر مزاح جملے جو تاریخ نے درست ثابت کر دیئے”

دھان پان کے جسم اور اسٹیلی اعصاب والے محمد علی جناح کم ہی کسی کو خاطر میں لاتے تھے. خاص کر حکمران طبقے کے آگے جھکنے یا معذرت خواہانہ عاجزی کے شدید خلاف تھے. زیرِ نظر تین مختصر واقعات انکے مزاح کی شگفتگی کے ساتھ ساتھ مذکورہ تین شخصیات کے متعلق جامع آگاہی بھی فراہم کرتے ہیں.

1. جناح کبھی بھی نہرو کے سیاسی نظریات سے زیادہ متاثر نہیں ہوئے. نہرو کے سوشلزم کے متعلق انہوں نے دلچسپ تبصرہ کیا کہ ” نہرو ایک پینڈولم کی طرح بنارس اور ماسکو کے درمیان لٹکتے رہتے ہیں.”. پارٹیشن کے بعد نہرو کی بھارت پر 17 برس کی اقتصادی اور سماجی طور پر پر بدترین حکمرانی نے یہ جملہ درست ثابت کر دیا.

2. دوسری جنگ عظیم میں ایک برطانوی شخص ولیم جوائس نے جرمنی کی شہریت لیکر برطانیہ کے خلاف خوب فاشسٹ پراپیگنڈا کیا. ریڈیو برلن سے اسکے پروگراموں نے انگلینڈ میں آگ لگا دی. اسے اپنی شعلہ بیانی، مبالغہ آرائی اور کذب بیانی کی وجہ ” لارڈ ھا ھا” Lord Haw Haw کا خطاب دیا گیا. جنگ کے خاتمے کے بعد غداری کے الزام میں اسے انگلینڈ نے پھانسی دیدی. غداری کے جرم میں سزا پانے والا وہ برٹن کا آخری شخص تھا. انہی دنوں میں سیکرٹری اسٹیٹ برائے بھارت، لارڈ پیتھک لارنس نے جناح سے ملاقات کی.

لارڈ لارنس جو جناح کو تقسیم سے روکنا چاہتے تھے، دوران گفتگو بولے ” دیکھیں مولانا ابوالکلام آزاد جیسا مسلمان رہنما بھی تقسیم کا مخالف ہے.” جناح فوراً بولے ” ہر قوم کا ایک لارڈ ھا ھا ہوتا ہے.”

3. ایک رات دوران پوجا گاندھی جی کے گرد سانپ گردش کرتا رہا مگر اس نے انہیں کاٹنے گریز کیا. پریس نے گاندھی جی کی کرامت کو خوب اچھالا اور انہیں بار بار مہاتما قرار دیا.

جناح کو بھی اکسایا گیا کہ آپ بھی گاندھی کو مہاتما کہیں کہ انہیں سانپ بھی نہیں ڈنگ مار سکتا. جناح نے انہیں مہاتما تسلیم کرنے سے انکار کیا. جب صحافیوں نے اس غیر معمولی واقعہ پر محمد علی جناح کا رد عمل جاننا چاہا تو ان کا جواب تھا ” سانپ کے گاندھی کو نہ کاٹنے میں کوئی بھی غیر معمولی بات نہیں. آخر کو پروفیشنل آداب بھی تو کچھ معنی رکھتے ہیں”

☺️😊