سلام ؔمچھلی شہری وفات 19 نومبر

شگفتہ بچوں کا چہرہ دکھائی دینے لگے

میں کیا کروں کہ اجالا دکھائی دینے لگے

یہ سخت ظلم ہے مالک کہ صبح ہوتے ہی

تمام گھر میں اندھیرا دکھائی دینے لگے

وہ صرف میں ہوں جو سو جنتیں سجا کر بھی

اداس اداس سا تنہا دکھائی دینے لگے

میں کامیاب جبھی ہوں گا اے رباب حیات

کہ بزم کو ترا نغمہ دکھائی دینے لگے

گلاب اگانے کی عادت سے فائدہ کیا ہے

اگر گلاب میں شعلہ دکھائی دینے لگے

مرا ہی عکس سہی پھر بھی وہ فرشتہ ہے

جو غیر ہو کے بھی اپنا دکھائی دینے لگے

بہت علیل ہو لیکن یہ بزدلی ہے سلامؔ

کہ تم کو موت کا سایہ دکھائی دینے لگے