شریف المجاہد تحریر محمود احمد فاروقی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
پروفیسر شریف المجاہد
یہ 1975 ء کی بات ہے اردو سائنس کالج سے فزکس ، میتھ اور جیالوجی کے ساتھ بی ایس سی کرنے اور کراچی یونیورسٹی میں جیوفزکس میں ایڈمشن ہوجانے کے بعد اچانک بھائی عبد الملک مجاہد سے مشورہ ہوا اور انہوں نے یہ کہا کہ جب آپ اخبار میں کام کر ہی رہے ہیں تو کیوں نہ صحافت میں داخلہ لے کر ایم اے کر لیں ۔ جیسا کہ ہمارا آپس میں تعلق تھا میں نے ان کی تجویز کو فوراً قبول کر لیا اور ہم ان کے ساتھ شعبہ صحافت کے چیئرمین ڈاکٹر سعید احمد کے کمرے میں گئے اور انہوں نے فوری طور پر داخلہ کی منظوری دے دی ۔ایم اے کے دوران خوش قسمتی سے انتہائی قابل اساتذہ ہماری تعلیم پر معمور ہوئے جن میں پروفیسر شریف المجاہد ، پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ، ڈاکٹر سعید احمد،ڈاکٹر فرمان فتح پوری ،پروفیسر مختار زمن ، پروفیسر زکریا ساجد اور پروفیسر لطیف شیروانی جیسے ممتاز اساتذہ شامل تھے ۔ جیسے ہی کلاسیں شروع ہوئیں تو یاد رہ جانے والا واقعہ یہ ہے کہ پروفیسر شریف المجاہد صاحب اپنے ایک چپڑاسی کے ہمراہ کچھ کتابیں اور نوٹس لے کر کلاس میں تشریف لائے تھے یہ غالباً تیسرے یا چوتھے دن کی بات ہے ،تعارف ہو چکا تھا انہوں نے مختلف گروپس میں کلاس کو تقسیم کر کے ایک ایک کتاب ہر گروپ کو پکڑا دی یہ اس سمسٹر کا اسائنمنٹ تھا جس میں ہمیں کتاب کا خلاصہ لکھنا تھا ۔ہمارے حصے میں چھے سو صفحے کی کتاب Mass Communication in Africa بزبان انگریزی آئی ۔ یہ کتاب ابلاغ عامہ کی بارہ بنیادی اصطلاحات پر مبنی ہے ہر اصطلاح کو ایک چیپٹر میں بہت تفصیل کے ساتھ ابلاغی تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں سمجھایا گیا ہے۔جو طالب علم اس کتاب کو پڑھ لے وہ ابلاغ عامہ کی مبادیات سے واقف ہو جاتا ہے ، اس وقت شعبہ صحافت میں ابلاغ عام کا مضمون صرف شریف المجاہد صاحب ہی پڑھا سکتے تھے جو امریکہ میں کئی سال گزارنے کے بعد چند سال قبل واپس آئے تھے ۔
ہمارے گروپ میں سید انور علی فرام اخبار جہاں، آمنہ پروین اور میں(محمود احمد فاروقی) شامل تھے ۔ تینوں نے کتاب کو تقسیم کر کے پہلے ترجمہ کیا پھر خلاصہ لکھا جو معروف طریقے کے مطابق ہاتھ سے لکھے ہوئے 180 صفحات پر مشتمل تھا ۔ جسے دیکھتے ہی شریف المجاہد صاحب نے ہمیں واپس کر دیا اور کہا کہ یہ کوئی خلاصہ ہے ۔ یہ توخود ایک کتاب ہے دوبارہ لکھ کر لائیں ۔ ساڑھے چار ماہ کے سمسٹر میں اڑھائی ماہ اس میں لگ چکے تھے ۔ دیگر اساتذہ کے اسائنمنٹس الگ سے تھے۔ بہرحال دوبارہ کوشش کی گئی اور 180 صفحات کو چالیس صفحوں میں با مشکل سمویا گیا جسے پروفیسر شریف المجاہد صاحب نے بہت ہی نا روا جانتے ہوئے قبول کیا اور بیس نمبر کے اسائنمنٹس میں بارہ سے تیرہ نمبر دئیے ۔گویا ہمارا کام اے گریڈ کے قابل نہیں تھا ۔پہلے سمسٹر میں شریف المجاہد صاحب سے دیگر طلباء کی طرح ایک نا گوار سا تعلق( جو بعد میں خوشگوار اور محبت بھرے تعلق میں تبدیل ہوا) قائم ہوا کہ یار یہ استاد کیسے ہیں جو نمبر بھی نہیں دیتے جو انتہائی مشکل مضمون پڑھاتے ہیں جن کی باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ شریف المجاہد صاحب جملوں کو چبا جاتے تھے اور مدراس سے تعلق ہونے کی بنیاد پر ان کا لہجہ بھی ذرا مختلف تھا ۔بہرحال خدا خدا کر کے یہ سمسٹر مکمل ہوا اگلے دو سال میں ہم نے شریف المجاہد صاحب سے ابلاغ عامہ،انڈین پالٹکس پڑھے اور تحقیقی مقالے میں وہ ہمارے استاد رہے ۔
ابلاغ عامہ میں ابلاغ عامہ کے نظریات والا حصہ ایک معمہ تھا نہ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا ، تحقیقی مقالے میں ہمیں بڑا فخر تھا کہ ہم ایک قومی سرگرمی کا حصہ ہیں کیونکہ 1976-77ء میں قائد اعظم کی صد سالہ یوم پیدائش کی تقریبات منائی جا رہی تھی ۔ حکومت پاکستان کی ہدایت کی روشنی میں جامعہ کراچی کے سینئر اساتذہ جن میں ڈاکٹرانیس خورشید صاحب لائبریری سائنس والے اور پروفیسر شریف المجاہد نے ایک بڑے منصوبے کے تحت اپنے طلبا ء سے قائد اعظم پر تحقیق کروائی مثلاً جو کام مجھے ملا تھا کچھ یوں تھا کہ روزنامہ جنگ کراچی میں قائد اعظم محمد علی جناح پر شائع ہونے والے مضامین کا توضیحی اشاریہ مرتب کرنا ۔ اس کی حد بندی یوں کی گئی کہ1951ء سے لے1975ء تک 14 اگست ، 23 مارچ ،11 ستمبر اور 25 دسمبر کے اخبار جنگ میں قائد اعظم پر شائع ہونے والے مضامین ۔ اس کام کے لیے ہمیں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انٹر نیشنل افیئرز اور روزنامہ جنگ کی لائبریری کے تقریباً ایک ڈیڑھ سال چکر لگانے پڑے اور وہاں چار چار گھنٹے کی نسشتوں میں پرانی فائلوں کی مدد سے اس کام کو مکمل کرنا پڑا مگر نمبر 65 ہی آئے اور بی گریڈ بن گیا۔
پروفیسر شریف المجاہد اپنے شاگردوں کا خاص خیال رکھتے تھے ۔ پوش طبقے سے تعلق رکھنے والی سینیٹ جوزف کی پڑھی ہوئی طالبات خصوصی برتاؤ کی مستحق ہوتی تھیں اور ہم جیسے لانڈی ، ملیر، لالو کھیت، نیو کراچی سے آنے والے اردو میڈیم الگ کیٹا گری میں ہوتے تھے ۔لیکن وہ پڑھاتے سب کو تھے اور جو پڑھنے میں ذرا ہچکچاتا اور کلاس سے راہ فرار اختیار کرتا تو پروفیسر صاحب کے بھیجے ہوئے دو تین مسٹنڈے طالب علم اسے آرٹس لابی سے ڈھونڈ کر ڈنڈا ڈولی کر کے کلاس میں لے آتے تھے ۔ ایک دو مرتبہ ہم بھی اسی واردات کا شکار ہوئے جبکہ بھٹو صاحب کی آمرانہ حکومت کے خلاف ہونے والے احتجاجی جلوس میں ہم شریک تھے کہ اچانک پیچھے سے آنے والے دو مسٹنڈوں نے دونوں طرف سے ہماری بغل میں ہاتھ ڈالا اور بزور بازو ہمیں کلاس میں لے جا کر پروفیسر شریف المجاہد کے سامنے پیش کر دیا ۔ اس وقت صرف ایک ہی جملہ زبان پر آسکا کہ سر میں تو آہی رہا تھا جبکہ کلاس کو شروع ہوئے دس منٹ ہو چکے تھے ۔
پروفیسر شریف المجاہد صاحب کی کلاس صبح ساڑھے آٹھ بجے شروع ہو تی تھی اور وہ کلاس میں آنے سے پہلے اخبارات بالخصوص ڈان اخبار کا تفصیلی مطالعہ کر کے آتے تھے اور کلاس میں گفتگو کی ابتداء کرنٹ افیئرز کا کوئی نہ کوئی موضوع ہوتا تھا جس کا ذکر اس دن کے ڈان اخبار میں ہوتا تھا اور طالب علموں میں سے شاید ہی کوئی،وہ پڑھ کر کلاس میں آتا تھا اور سب کی سبکی ہوتی تھی پھر پروفیسر شریف المجاہد صاحب اس خبر کا تجزیہ کرتے اس کا پس منظر بتاتے اور یوں ہمیں ایک باخبر صحافی بنانے کی کوشش کرتے کامیاب یا ناکام، یہ ہر طالب علم کا انفرادی معاملہ تھا۔ لیکن بعض ذہین طالب علم مجاہد صاحب کی ان معلومات سے فائدہ بھی اٹھاتے تھے۔مثلاً آپ شریف المجاہد صاحب سے کسی بھی وقت کسی بھی بین الاقوامی مسئلہ پر گفتگو کر کے درست حقائق بمعہ تاریخوں کے اور شرکاء کے ناموں کی تفصیل کے ساتھ حاصل کر سکتے تھے۔بس ان کو صرف اتنا کرنا پڑتا تھا کہ وہ اپنی پیشانی پر ایک یا دو مرتبہ اپنے دائیں ہاتھ سے ہلکی ہلکی تھپکیاں دیتے اور پھر وہ اس طرح گویا ہوتے ہاں یہ میٹنگ جون کی فلاں تاریخ کو مصر کے فلاں شہر میں ہوئی تھی اس میں فلسطین کی طرف سے فلاں فلاں رہنما شامل تھے جبکہ دوسری پارٹی کی جانب سے فلاں فلاں لوگ آئے تھے اور یہ میٹنگ دو دن چلی اس کے بعد اتنے نکات پر ایک سمجھوتا ہوا ۔ یوں شریف المجاہد صاحب کے پاس ایگزیکٹ معلومات انتہائی باریک تفصیلات کے ساتھ ان کے ذہن میں محفوظ ہوتی تھی جنہیں تھوڑی سی کوشش سے نکلوایا جا سکتا تھا ۔کلاس میں دلچسپی برقرار رکھنے میں پروفیسر شریف المجاہد صاحب کا مدراسی لہجہ بھی ایک عامل کے طور پر کام کرتا تھا وہ ایل کو یل ، ایم کو یم، اور این کو ین، پروناؤنس کرتے تھے جو جنوبی ہند بالخصوص مدراس کے لوگوں کا عمومی لہجہ ہے جیسے ہمارے بلوچستان میں مکران کے لوگ ایف کو ایپ، کہتے ہیں ، مصر کے لوگ جمال کو گمال کہتے ہیں بالکل اسی طرح۔
پروفیسر شریف المجاہد چونکہ امریکہ سے پڑھ کر آئے تھے تو اسٹائل بھی امریکن تھا ۔ لال یا پیلے رنگ کی بنیان کالی پینٹ ، بلیک شوز ، سر پر بال ندارد ، قد نکلتا ہوا نہیں تھا ، جسم بھاری اور پتلون کی دونوں جیبوں میں ٹشو پیپرز بھرے ہوتے تھے ۔ ایک جیب میں استعمال شدہ اور دوسری جیب میں استعمال کے لیے ۔کیونکہ ہمارے استاد نزلے کے دیرینہ مریض تھے اور مدراس یا جنوبی ہند کی خاص سوغات ’ناس‘ استعمال کرتے تھے یہ ایک ایسا پاؤڈرسرخ کتھئی رنگ کا ہوتا ہے جس کی اگر ایک چٹکی سونگھ لی جائے یا ناک کےشروع میں لگا دی جائے تو بند سے بند ناک بھی کھل جاتی ہے اور چھینکوں کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ شریف المجاہد اس چٹکی سے بہت مدد لیا کرتے تھے لیکن اس کا توڑ جو ہے وہ ٹشو پیپر بھی ہے جو ہمیشہ ان کی جیب میں موجود رہتا تھا ۔
پروفیسر شریف المجاہد صاحب نے قیام امریکہ کے دوران میری معلومات کی حد تک میکگل یونیورسٹی کینیڈا، اسلامک اسٹڈیز اور دنیا کی بہترین یونیورسٹی اور اسٹین فورڈ سے ماسٹرز کیےاور سیراکیو ز یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی نامکمل رہ گیا ۔ پی ایچ ڈی میں ان کا موضوع تحقیق امریکہ سے شائع ہونے والے معروف جریدے غالباً ٹائمز میں پاکستان کے بارے میں شائع ہونے والی خبروں اور مضامین کا موضوعاتی تجزیہ تھا جو آخری وقت میں پاکستان میں ان کی مصروفیات قائد اعظم اکیڈمی کے قیام کی مصروفیات کے سبب تین ماہ کی خصوصی رخصت کا نہ ملنا تھا جس میں انہیں اپنے تھیسیز کا دفاع کرنا اور سپر وائزر کے مشورے اور اعتراضات کے مطابق اپنی تحقیقی مقالے کو درست کرنا تھا ، ان کے اساتذہ میں ماس کمیونیکیشن کے بانی پروفیسر ولبر شرام بھی شامل تھے ۔
کراچی یونیورسٹی سے پروفیسر شریف المجاہد صاحب کی وابستگی ابتداء ہی سے تھی جہاں انہوں نے 1955 میں شعبہ صحافت کی بنیاد رکھی اور 1960,61 میں ایم اے صحافت کے کورسز کا اجراء کیا قبل ازیں ڈپلومہ کورسز ہوا کرتے تھے ۔شعبہ صحافت جامعہ کراچی میں تدریسی فرائض دینے والے تمام ہی اساتذہ سوائے پروفیسر ذکریا ساجد کے ان کے شاگر د تھے ۔ اولین کلاس میں ڈاکٹر انعام الرحمٰن ، پی پی آئی والے فضل قریشی اور کئی ممتاز صحافی ان کے شاگرد رہے ۔ بعد ازاں شاگردوں میں تو ’’ انکل عرفی‘‘ والی شہلا احمد بھی تھیں۔
ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی جو سینیٹ سٹیفن کالج دہلی میں ایوب خان، اور جنرل ضیاء الحق کے استاد رہ چکے تھے کو جب صدر ایوب خان نے کراچی یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا تو پروفیسر شریف المجاہد صاحب ان کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیے جاتے تھے اور اس حوالے سے انہوں نے جامعہ کی تنظیم اور ترقی میں خصوصی کردار ادا کیا ۔ پروفیسر شریف المجاہد صاحب کے ڈاکٹر قریشی سے تعلق اور کراچی یونیورسٹی میں اساتذہ کی سیاست کے سبب بائیں بازو کے بعض صحافی ان سے بغض رکھتے تھے یہاں تک کہ روزنامہ مساوات میں شہ سرخیوں میں انہیں امریکی ایجنٹ تک لکھا گیا جس کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ پاکستان میں بعض مسائل پر امریکی یونیورسٹیز جن سے ان کا تعلق رہا انہیں چھوٹے چھوٹے تحقیقی منصوبے سونپا کرتی تھی۔ایسے منصوبے آج کل یو ایس ایڈ کے تحت لینے کے لیے ہر چھوٹا بڑا دوڑے جا رہا ہے ۔
پروفیسر شریف المجاہد صاحب سے اللہ تعالیٰ نے بڑے کام لیے جن میں کراچی یونیورسٹی ،بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ملائشیاء میں ابلاغ عامہ کے شعبوں کی بنیاد رکھنا ، قائد اعظم اکیڈمی اور آرکائیو آف فریڈم موومنٹ کے بانی ڈائریکٹر کے طور پر ان اداروں کی تشکیل، اس کے علاوہ دعوۃ اکیڈمی اور شریعہ اکیڈمی کے شعبہ تحقیق کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کا کام انہوں نے کیا ، شعبہ ابلاغ عامہ ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی تشکیل کے ابتدائی دنوں میں پروفیسر شریف المجاہد صاحب کے ساتھ کام کرنے کا مجھے موقع ملا۔ان کے حکم اور ہدایت کی روشنی میں ، میں نے دنیا کی چند بڑی یونیورسٹیز اور ایچ ای سی کے مقررہ ابلاغ عامہ کے سلیبس کی آؤٹ لائن کا ایک موازنہ انہیں تیار کر کے دیا جس کی بنیاد پر انہوں نے اسلامی یونیورسٹی کے ابلاغ عامہ کے کورسز کی تفصیلات کا تعین کیا۔اس سلسلے میں ان کے ساتھ ڈاکٹر ظفر اقبال جو اس وقت شعبے کے صدر نشین بھی ہیں انہوں نے بھی خدمات انجام دیں میں یہ عموماً یونیورسٹی میں اپنی ڈیوٹی پوری کرنے کے بعد گیسٹ ہاؤس میں جو فیصل مسجد کے اطراف میں مو جود ہے جہاں پروفیسر شریف المجاہد صاحب چھے ماہ مقیم رہے ان کے پاس چلا جاتا تھا جہاں وہ یہ منصوبہ بندی کر رہے تھے ۔اس سلسلے میں ایک اہم بات جس کا تذکرہ کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں کہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے اس وقت ریکٹرڈاکٹر منظور احمد (کراچی یونیورسٹی شعبہ فلسفہ والے )اور ڈاکٹر انوار حسین صدیقی ، صدر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی تھے ۔ پروفیسر شریف المجاہد صاحب کو تین تین ماہ کے کنٹریکٹ پر رکھا گیا تھا کہ وہ شعبہ ابلاغ عامہ کی تشکیل اور قیام میں بطور کنسلٹنٹ کام کریں۔ ایک دن مجاہد صاحب سے گفتگو کے دوران جب مجھے پتہ چلا کہ ان کا اس کام کے لیے معاوضہ 25 ہزارروپے ماہانہ ہے اور گیسٹ ہاؤس کا کمرہ اور ان کا کھانا پینا اس کے علاوہ ہے ۔بحیثیت شاگرد مجھے اس پر بہت غصہ آیا اپنے استاد کی یہ نا قدری دیکھ کر اور بطور ڈائریکٹر اسلامی یونیورسٹی مجھے شرمندگی بھی ہوئی میں نے مجاہد صاحب سے کہا کہ سر چھوڑیں آپ گھر جائیں ، آپ کراچی میں اپنی فیملی کو چھوڑ کر یہاں اکیلے رہ رہے ہیں اتنا بڑا کام کر رہے ہیں اس پور ے علاقے میں کسی یونیورسٹی میں ابلاغ عامہ کا شعبہ نہیں ہے جہاں طلباء کیمپس میں آ کر اس کی تعلیم حاصل کر سکیں ۔ آپ یہ شعبہ بنا کر دے رہے ہیں اور آپ کو یہ صرف 25 ہزار روپے دے رہے ہیں ۔جبکہ خود ان لوگوں کی تنخواہیں تین تین لاکھ روپے سے زیادہ ہیں مگر انہوں نے مجھے اس کا کوئی خاص جواب نہیں دیا ایک دن اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران جب ڈاکٹر منظور احمد صاحب نے بطور ریکٹر مجھے طلب کیا اور تنہائی میسر آئی تو میں نے ان کے سامنے یہ مسئلہ رکھا تو انہوں نے بھی حیرت کا اظہار کیا اور فرمایا کہ میں انوار سے بات کروں گا لیکن مجاہد صاحب کے کنٹریکٹ کی تکمیل پچیس ہزار روپے ماہانہ پر ہی ہوئی ۔
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی نے پروفیسر شریف المجاہد صاحب کی علم اور تحقیق سے بہت فائدہ اٹھا یا ۔ ان کی کتابیں نظریہ پاکستان اور آئیڈیالوجیکل فاؤنڈیشن آف پاکستان کو دعوۃ اکیڈمی، شریعہ اکیڈمی او ر ادارہ تحقیقات اسلامی نے شائع کیا ۔ جو سی ایس ایس اور دیگر یونیورسٹیز کے سلیبس میں شامل ہونے کے سبب بڑی تعداد میں فروخت ہوتی ہیں ان دو کتابوں کے بارے میں ایک دلچسپ کمنٹ یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں سیاست میں گزشتہ ساٹھ سال سے نظریہ پاکستان ، نظریہ پاکستان کا نعرہ بھی لگاتی رہی اور رونا بھی روتی رہی ہیں لیکن کسی نے بھی تحقیق کے ذریعے دنیا کے سامنے واضح نہیں کہ نظریہ پاکستان کیا ہے کیوں ہے اور کیسے ہے ۔ پروفیسر شریف المجاہد صاحب کی یہ دونوں کتابیں ان سوالات کا محققانہ جواب ہیں جس میں قوموں اور ممالک کی تشکیل اور بنیادی اصولوں اور ایک ہزار سال کے دوران بین الاقوامی معاہدوں کی بنیاد پر واضح کیا گیا ہے کہ نظریہ پاکستان کیا ہے اور اس کا جواز کیا ہے ۔
پروفیسر شریف المجاہد صاحب تحریک پاکستان ، قائد اعظم اور قائد اعظم اکیڈمی یہ ایک ایسی چوکور ہے جس کی بنیاد پروفیسر شریف المجاہد صاحب نے بطور صدر مسلم اسٹوڈنٹ فیڈریشن مدراس ،قیا م پاکستان سے قبل قائد اعظم محمد علی جناح کو خط لکھ کر رکھی تھی ۔ یہ خط انہیں بعد میں مسلم لیگ پیپرز کی بوریوں سے ملا جنہیں آرکائیو آف فریڈم موومنٹ کا نام دے کر پروفیسر شریف المجاہد صاحب کی نگرانی میں تر تیب و تدوین کی گئی۔ایک دلچسپ واقعہ مجاہد صاحب کی بطور ڈائریکٹر قائد اعظم اکیڈمی تقرری کے وقت بھی پیش آیا ۔ قائداعظم اکیڈمی کے قیام کے وقت اس کے ڈائریکٹر کے طور پر تقرری کے خواہش مندوں میں جناب زیڈ اے سلہری، شریف المجاہد صاحب کے مقابلے میں ایک تگڑے امیدوار تھے جو حکومت پاکستان کے اخبار پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر تھے اور بڑا نام تھا۔ظاہر ہے کہ حکومت نے اس ادارے کی ابتداء کرتے ہوئے امیدواروں سے پوچھا کہ وہ اس عہدے پر کام کرنے کا کیا معاوضہ لیں گے ۔ جس پر پروفیسر شریف المجاہد صاحب نے انتہائی انکساری اور سادگی کے ساتھ جو مطالبہ سلیکشن کمیٹی کے سامنے رکھا وہ کچھ اس طرح تھا کہ جامعہ کراچی کی ملازمت والی تنخواہ ، اسٹاف ٹاؤن کا گھر ان سہولیات کے ساتھ وہ اس ادارے کے ڈائریکٹر کے طور پر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔جبکہ دیگر امیدواروں کی جانب سے جو مطالبے آئے ہونگے اس کا ہم اندازہ کر سکتے ہیں اور ہم نے یہ دیکھا ہے کہ پروفیسر شریف المجاہد صاحب نے قائد اعظم اکیڈمی میں جتنا بھی عرصہ گزارا اس دوران وہ سوزوکی ہائی روف جو اکیڈمی کی واحد گاڑی تھی اسی میں آتے جاتے رہے ۔ پروفیسر شریف المجاہد صاحب کی یہ سادگی ان کے کھانے پینے میں بھی تھی میں عموماً ہفت روزہ وقت کے ایڈیٹر ہوتے ہوئے گھومتے پھرتے شریف المجاہد صاحب کے دفتر چلا جاتا تھا اور ان کے ساتھ دوپہر کے کھانے میں شریک ہوتا تھا جو ان کے گھر سے آتا تھا ایک عام سا سالن ،دہی اور ہمارے لیے بازار سے منگوائی گئی روٹی یہ لنچ ہوتا تھا ۔ اکیڈمی میں میری دلچسپی ، میرے دیگر احباب بھی تھے جو وہاں بطور ریسرچ آفیسر کام بھی کر رہے تھے جن میں عرفان علی یوسف، خالد رحمٰن،خواجہ رضی حیدر اور یوسف سعید ان سب سے میری ملاقات تھی۔ قائد اعظم اکیڈمی کے لیے بلڈنگ خریدنے میں جگہ اور بلڈنگ کے انتخاب میں پروفیسر شریف المجاہد صاحب کی قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ محبت اور تعلق کا اظہار ہوتا ہے انہوں نے مزار قائد کے سامنے ایم اے جناح روڈ پر ایک بہت معرکے کا بنگلہ انتہائی سستے داموں (چند لاکھ) اس وقت خریدا جو اپنے محل وقوع کے اعتبار سے اس وقت کروڑوں کی مالیت کا ہے ۔
ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی جب وہ وائس چانسلر تھے یونیورسٹی کی تنظیم اور تحقیق کو آگے بڑھانے میں پروفیسر شریف المجاہد صاحب کا کردار بہت اہم ہے۔ اسی طرح پاکستان ہسٹوریکل سوسائٹی کے ساتھ ڈاکٹر معین الحق سے لے کر اپنے انتقال تک حمید ہارون کے ساتھ رہا ۔ پروفیسر شریف المجاہد صاحب کا ایک اہم حصہ ان کا ذاتی کتب خانہ ہے جس میں انتہائی اہم تاریخی ، قدیم کتب کا ذخیرہ ہے جن کی مالیت کا تعین نہیں کیا جا سکتا ۔
چالیس سال کے اس تعلق کے دور میں مجھے ان کے گھر بے شمار مرتبہ جانا آنا ہوا وہ بھی میرے گھر اسلام آباد تشریف لائے پروفیسر شریف المجاہد صاحب عموماً گھر کے بر آمدے میں اخبارات اور موصول ہونے والی ڈاک کے ساتھ بیٹھے ہوتے ۔ اگر مختصراً ملاقات ہوتی تو وہیں پر چائے یا شربت کی تواضع کے ساتھ بات ہو جاتی ، بصورت دیگر ڈرائنگ روم میں بیٹھا کرتے تھے ۔ پروفیسر شریف المجاہد صاحب کا ڈرائنگ روم ان کے بیرون ملک آمدو رفت کے دوران خریدی گئی مختلف ممالک کی خوبصورت سجاوٹی اشیاء سے سجا ہوا تھا۔گھر پر مجھے یاد آیا کہ ان کا نارتھ ناظم آباد والا گھر ایک طویل عرصہ تک کراچی کی ایک اہم ادبی و کاروباری شخصیت نے کرائے پر لے رکھا تھا غالباً چھ سو روپے ماہانہ اور پروفیسر شریف المجاہد صاحب کے اصرار کے باوجود وہ اسے خالی نہیں کر رہے تھے ۔ اس دوران میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں جب وہ قائد اعظم اکیڈمی کے ڈائریکٹر تھے اور ان کا جنرل ضیاء الحق اور ان کے قریبی ساتھیوں ، شریف الدین پیر زادہ وغیرہ سے گہرا تعلق تھا ان کے بہی خواہوں نے انہیں مشورہ بھی دیا کہ وہ مکان کو خالی کروانے کے لیے ان تعلقات کو استعمال کر لیں لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا ۔کراچی یونیورسٹی سے ریٹائرمنٹ کے بعد جب ان کے پاس رہائش کے لیے گھر نہ رہا تو عدالت کے ذریعے یہ گھر خالی ہو کر انہیں ملا ۔ پروفیسر شریف المجاہد صاحب کو عموماً ایک لبرل رائٹسٹ سمجھا جاتا ہے اور یہ درست بھی ہے ۔ ہندوستان میں جس صوبے مدراس سے ان کا تعلق تھا اور جس طرح کے ان کی ابتدائی تعلیم ہوئی اس میں ایسی شخصیت کی تشکیل ممکن تھی لیکن میں نے انہیں جامعہ کراچی کی مرکزی مسجد میں رمضان کی مکمل بیس تراویح پورا ماہ پڑھتے ہوئے دیکھا ہے ۔ صرف وہی نہیں بلکہ جامعہ کراچی کے اکثر سینئر اساتذہ جن میں شیخ الجامعہ بھی شامل ہیں ۔ ایسے ہی عبادات کا اہتمام کرتے رہے ہیں ۔رمضان کی حد تک ہم آنکھوں دیکھی گواہی دے سکتے ہیں ۔
ڈاکٹر عطاءالرحمٰن جب ایچ ای سی کے چیئرمین بنے تو انہوں نے جامعات کے لیے وائس چانسلرز کے تقرر کا ایک نیا طریقہ کار شروع کیا جس میں سرچ کمیٹی بنائی گئی باقاعدہ اخبارات میں اشتہار دے کر درخواستیں بھی طلب کی گئی اور دیگر لوگوں سے تجاویز بھی مانگی ہیں۔ ایسے ہی ایک موقع پر جب بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے لیے صدر جامعہ کی آسامی کی درخواستیں طلب کی گئیں تو میں نے پروفیسر شریف المجاہد صاحب کے بارے میں ایک تفصیلی تجویز ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب یا ایچ ای سی کی سرچ کمیٹی کو بھجوائی جو قبول تو نہیں ہوئی کیونکہ پاکستان میں سفارش ، تعلق کی بنا ایسے کام نہیں ہوا کرتے لیکن ایک شاگرد کی جانب سے اپنے استاد کے لیے محبت ، احترام اور اعتراف میں اسے شامل کیا جا سکتا ہے۔
پروفیسر شریف المجاہد صاحب کو کراچی یونیورسٹی جرنلزم المنائی ایسوسی ایشن سے خصوصی تعلق تھا وہ اس کی سر پرستی فرمایا کرتے تھے کوجا کے انتخابات اور ایگزیکٹو کمیٹی کے کئی اجلاس قائد اعظم اکیڈمی میں ان کی اجازت سے ہوئے ۔
پروفیسر شریف المجاہد صاحب کے ساتھ میرا تعلق 1975ء میں شروع ہوا اور ان کے انتقال تک جاری رہا ۔ میں ان کے گھر آیا جایا کرتاتھا ۔ اسلام آباد میں جب بھی تشریف لاتے مجھے ضرور یاد کرتے اور میں ان سے ملنے جاتا ایک مرتبہ وہ میرے گھر دعوت پر تشریف لائے اور میرے بچوں سے خصوصی ملاقات کی اور انہیں نصیحتیں کی ، تعلیم کے حوالے سے رہنمائی کی ۔وہ ہر مرتبہ فون پر یا ملاقات پر میرے علاوہ میری فیملی اور بچوں کی خیریت فرداً فرداً معلوم کرتے تھے ۔ جب تک وہ صاحب فراش نہ ہوئے ہر ہفتے پانچ منٹ کی کال جو کبھی بڑھ کر طویل بھی ہو جاتی تھی مجھے کیا کرتے تھے او ر میں بھی جواباً ایسا ہی کیا کرتا تھا۔
پروفیسر شریف المجاہد صاحب تعلق نبھانے والے بزرگوں میں شامل ہیں وہ کیبنٹ ڈویژن بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی یا علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کسی کی بھی دعوت پر جب اسلام آباد تشریف لاتے تھے تو ان کے پاس اپنے احباب کے لیے کراچی کی سوغات جیسے شیر مال ، نمکو وغیرہ تحائف کی صورت میں موجود ہوتی تھیں۔ انہوں نے مجھے ایک مرتبہ ایک شرٹ جو وہ انگلینڈ سے لائے تھے اور ایک نان اسٹک فرائی پین تحفتاً دیا ۔
ایک بات رہ گئی جو بہت اہم بھی ہے وہ یہ کہ مسلح افواج کے سروسز کلب نے پروفیسر شریف المجاہد صاحب کی کتاب آئیڈیالوجیکل فاؤنڈیشن آف پاکستان کئی ہزار کی تعداد میں شائع کر کے آفیسرز میں تقسیم کی تھی لیکن شریف المجاہد صاحب کو اس کی رائیلٹی نہیں دی گئی ۔جو بطور محقق اور رائٹر ان کا حق تھا ۔ مجھے یہ سن کر بہت افسوس ہوا۔ میں نے باتوں باتوں میں بنیادی حقائق ان سے معلوم کیے اور بطور سابق طالب علم چیف آف آرمی سٹاف کو ایک خط لکھا کہ وہ اس معاملے کی تحقیق کروائیں اور مجاہد صاحب کو یہ رائیلٹی دلوائیں ۔اس خط کے جواب میں ایک صاحب کا لاہور سے فون آیا جنہوں نے کہا کہ وہ اس مسئلے پر بات کرنا چاہتے ہیں میں ان دنوں کراچی میں تھا ۔ میں نے انہیں شعبہ ابلاغ عامہ میں ملاقات کے لیے بلوایا وہ اس کتاب کے پرنٹر تھے جنہوں نے چالاکی کے ساتھ پاکستان آرمی کے مطبوعات کے شعبہ سے یہ ایگریمنٹ کیا تھا کہ وہ رائٹر کے ساتھ رائیلٹی کا معاملہ طے کر لیں گے ۔ لیکن کئی برس گزرنے کے باوجود نہ انہوں نے رابطہ کیا اور نہ رائیلٹی دی تھی اور نہ ہی یہ انکا کام تھا کیونکہ رائیلٹی دینا پبلشر کی ذمہ داری تھی۔بہرحال تین سو سے زائد صفحات کی کتاب انگریزی زبان میں اس کی وہ چھے روپے فی کتاب کے حساب سے رائیلٹی دینا چاہتے تھے ۔ میں نے ان سے کہا کہ اگر اس کتاب کی قیمت تین سو روپے فرض کر لی جائے اور دس فیصد رائیلٹی مقرر کی جائے تو ہر کتاب پر تیس روپے رائیلٹی بنتی ہے آپ نے دس بارہ ہزار سے زائد کتاب چھاپی ہے اگر آپ اس حساب سے ادائیگی کر دیں تو ہم رسید لکھ دیتے ہیں لیکن وہ اس پر تیار نہ ہوئے اور ایک دو دن پریشر ڈالتے رہے کہ جو میں دے رہا ہوں وہ لے لو اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں کر سکتے ۔پھر اس کے بعد وہ چلے گئے یہ معاملہ ابھی باقی ہے ۔ پروفیسر شریف المجاہد صاحب کے بلا شبہ ہزاروں شاگرد ہیں ان میں سینکڑوں فوج میں بھی ہیں۔میرا خیال ہے کہ ان میں سے کسی کو اس معاملے کو اٹھا کر یہ رقم ان کی اہلیہ کو دلوانی چاہیے جو اس کی حق دار ہیں ۔
پروفیسر شریف المجاہد صاحب کے حوالے سے ابھی بے شمار یادیں اور باتیں موجود ہیں اگر اللہ نے توفیق دی تو پھر کبھی ضبط تحریر میں لائیں گے ۔ ان شا ءاللہ ۔
محمود احمد فاروقی
تاریخ 21اپریل 2020ء