تنقید شاہ سے ذرا بچ کے باتوں باتوں میں۔۔۔ طارق بٹ

تنقید شاہ سے ذرا بچ کے

باتوں باتوں میں۔۔۔ طارق بٹ

موصوف تنقید شاہ کا میرے پاس اکثر آنا جانا لگا رہتا ہے اس طرح آپ ان کو میرے ملنے والوں میں شمار کر سکتے ہیں البتہ دوستی کے معیار پر وہ پورے نہیں اترتے یا یوں کہہ لیں کہ میں پورا نہیں اترتا اس لئے میں نے کبھی بھی انہیں اپنا دوست نہیں سمجھا جہاں تک تعلق ہے ان کا تو وہ اپنی تنقیدی مار مار کے کسی کو اپنا دوست رہنے ہی نہیں دیتے۔ موصوف مثل ہیں معروف صوفی ادیب اشفاق احمد مرحوم کے لافانی ریڈیائی کردار تلقین شاہ کے جو اشفاق احمد مرحوم برسوں لاہور ریڈیو سے خود کرتے رہے اور ہدایت اللہ کو بے ہدایتا ثابت کرنے کے لئے اسے بات بات پر تلقین فرماتے مگر ہدایت اللہ بے چارہ ساری زندگی بے ہدایتا ہی رہا۔ اسی طرح تنقید شاہ کی تنقید مسلسل کے باوجود بھی ناچیز اپنے آپ کو ان کے رنگ میں نہ رنگ سکا جس کی مجھے از حد خوشی اور انہیں زندگی بھر ملال رہے گا۔ تنقید شاہ کے ان دنوں تسلسل سے کیئے جانے والے چند تنقیدی تبصرے محترم قارئین کی نظر۔
تبصرہ نمبر 1۔ طارق بٹ جہاں تم رہتے ہو اسے کیا کہتے ہیں؟۔ میں نے جواب دیا گھر۔ بولے یعنی اسے طارق بٹ کا ہوم یا ہاؤس بھی کہہ سکتے ہیں۔ میں نے کہا کہہ لیں شاہ جی میرا کیا جاتا ہے شاہ جی بولے اب آگے چلو جہاں تحصیلدار رہتا ہے اسے تحصیلدار ہاؤس کہتے ہیں جہاں ڈی سی رہتا ہے اسے ڈی سی ہاؤس کہتے ہیں اسی طرح کمشنر کی سرکاری رہائش گاہ کمشنر ہاؤس کہلاتی ہے وزیر اعلی کی رہائش گاہ کو وزیر اعلی ہاؤس اور گورنر کی رہائش گاہ کو گورنر ہاؤس کہا جاتا ہے صدر ہاؤس صدر مملکت رہائش کے لئے استعمال کرتے ہیں اور وزیر اعظم ہاؤس میں وزیر اعظم رہائش پذیر ہوتے ہیں بات سمجھ میں آئی؟۔ میں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا نہیں۔ شاہ جی نے ہنستے ہوئے پوچھا عمران خان کہاں رہتا ہے؟ میں نے کہا ایک سرونٹ کوارٹر میں۔ شاہ جی نے فورا اگلا سوال دے مارا۔ اور وہ سرونٹ کوارٹر کہاں ہے؟ ۔ میں نے جواب دیا وزیر اعظم ہاؤس میں۔ شاہ جی نے ایک بلند و بانگ قہقہہ لگایا اور بولے چلو تمہارا چار ہفتے کا تردد دور ہو گیا وزیر اعظم جہاں بھی رہے گا وہ وزیراعظم ہاؤس کہلائے گا خواہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ پھر خواہ مخواہ کی ٹامک ٹوئیاں مارنے کی کیا ضرورت ہے وزیر اعظم کو رہنے دو وزیر اعظم ہاؤس میں اسے بھی کام کرنے دو اور خود بھی کوئی کام کرو بڑے صحافی بنے پھرتے ہیں۔
تبصرہ نمبر 2۔ تنقید شاہ جی نے مجھ سے پوچھا یار یہ بتاو اسپتالوں میں کون جاتا ہے ؟۔ میں نے کہا ڈاکٹر، نرسیں اور دیگر پیرا میڈیکل اسٹاف۔ وہ بولے میرا مطلب ہے علاج کروانے کون جاتا ہے؟ میں نے جواب دیا ظاہر ہے مریض۔ شاہ جی بولے اب آ گئے ہو نا لائن پر اچھا اب یہ بتاؤ شرجیل میمن کو کوئی بیماری ہوگی تو اسے جیل اسٹاف نے اسپتال داخل کروایا ہو گا نا؟ میں نے کہا بالکل۔ وہ بولے مریض کو اس کے علاج کے لئے ظاہر ہے دوا دی جاتی ہے اور آرام کا کہا جاتا ہے۔میں نے تسلیم میں جواب دیا۔ شاہ جی نے مجھے کمزور پڑتے دیکھ کر زور دیتے ہوئے کہا اب اگر اسپتالوں میں مریضوں کے کمروں پر چھاپے پڑنے شروع ہو گئے تو مریض آرام کیا خاک کریں گے۔ میں نے کمزور سا احتجاج کرتے ہوئے پوچھا شاہ جی اس مریض کے کمرے سے جو کچھ برآمد ہوا اس کے بارے میں بھی آپ کو معلوم ہے یا نہیں؟ دبنگ لہجے میں بولے بالکل معلوم ہے شہد اور زیتون کا تیل ملا تھا۔ میں نے کہا مگر شاہ جی۔ وہ فورا بولے اگر مگر کچھ نہیں نہ تو میں کیمیکل ایگزامینر ہوں اور نہ ہی تم۔کیمیکل ایگزامینر کی رپورٹ میں ثابت ہو چکا کہ وہ شہد اور زیتون کا تیل تھا، اس لئے تھا، اب تم ہی بتاؤ میں تمہاری مانوں، محترم چیف جسٹس آف پاکستان کی مانوں یا پھر کیمیکل ایگزامینر کی مانوں جس کا کام ہی ایسی چیزوں کا تجزیہ کرنا ہے۔
تبصرہ نمبر 3۔ تنقید شاہ جی نے ایک اور گھمبیر مسئلہ سمجھاتے ہوئے میرے دماغ کی خوب چٹنی بنائی بولے انسان پڑھتا کیوں ہے؟ میں نے فورا جواب دیا اس لئے کہ وہ اچھا انسان اچھا شہری بن سکے۔ شاہ جی ہنس کے بولے پرویز مشرف نے دو بار ملک کا آہین توڑا ملک کے منتخب وزیراعظم کو اقتدار سے الگ کیا اور اسے جلاوطن کر دیا۔ اعلی عدلیہ کے ججوں کو برطرف کر دیا۔ نواز شریف پر اپنے ذرائع آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا الزام ہے آصف علی زرداری اور فریال تالپور پر منی لانڈرنگ کے کیس چل رہے ہیں۔ بابر اعوان پر نندی پور پاور پراجیکٹ کی فائل تین سال تک دبا کے رکھنے سے ملک کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانے کا کیس ہے پرویز اشرف پر بھی اربوں روپے کے ناجائز استعمال کا کیس چل رہا ہے ڈاکٹر عاصم ، شرجیل میمن اور یوسف رضا گیلانی بھی اسی فہرست میں شامل ہیں اور تو اور عدالت عظمی سے صادق اور امین کا سرٹیفکیٹ لینے والے موجودہ وزیراعظم عمران خان بھی ہیلی کاپٹر کے ناجائز استعمال اور پارٹی کے لئے فارن فنڈنگ کے کیسوں کا سامنا کر رہے ہیں اب یہ جتنے نام میں نے لئے ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی ان پڑھ بندہ مجھے بتا دو۔ میں نے کھسیانے سے لہجے میں جواب دیا ایک بھی نہیں یہ سارے پڑھے لکھے اور بہت ہی معتبر لوگ ہیں۔ تنقید شاہ جی نے آواز اونچی کرتے ہوئے کہا اب خود ہی بتاؤ تعلیم نے ان کا کیا بگاڑ لیا کیا پڑھنے لکھنے سے یہ اچھے انسان اور اچھے شہری بن پائے چلو تم کوئی ایک ان پڑھ بندہ مجھے ایسا بتا دو جس نے اس ملک کو ان سب جتنا یا ان میں سے کسی ایک جتنا نقصان پہنچایا ہو۔ میں نے بہت سوچا مگر ذہن میں اس کے علاوہ اور کچھ نہ آیا کہ ہمیں تنقید شاہ جیسے لوگوں کی باتوں پر بالکل بھی توجہ نہیں دینی چاہیے جو نہ خود کچھ کرتے ہیں اور نہ ہی کسی اور کو کچھ کرتے دیکھ سکتے ہیں اس لئے تنقید شاہ سے ذرا بچ کے رہنا چاہیے۔۔۔!