سزائے موت کے قیدی تحریر محمد اظہر حفیظ

ہم سب سزائے موت کے قیدی ہیں اور ان کی طرح ہی دنیا بند ہیں اور انتظار کررہے ہیں کہ کب یہ سزا پوری ہو اور ہم دنیا چھوڑ جائیں۔
کچھ لوگوں کو اس قید میں اے کلاس ملی ہوئی ہے ائرکنڈیشنڈ کمرے ،کیبل ٹی وی، فریج اور خدمت کیلئے خدمت گار مرضی کا کھانا پینا، بستر اور واک کیلئے جگہ بھی مہیا کی گئی ہے۔
پھر آجاتے ہیں بی کلاس دنیا بند قیدی کیبل ٹی وی تو ہے پر ائرکنڈیشن کی سہولت نہیں ہے اور نہ ہی خدمت گزار۔ پھر آجاتی ہے سی کلاس جس میں پنکھے کی ہی سہولت ہے باقی کچھ نہیں۔ان سب کو اٹیچ باتھ بغیر دروازے کی سہولت مہیا ہوتی ہے۔
پھر آجاتے ہیں موت کی کوٹھری کے قیدی، کوئی سہولت نہیں اور سارا دن مزدوری ہی مزدوری اور مل بھی کسی سے نہیں سکتے۔ یہ سب دین کی طرف واپس آجاتے ہیں نماز ادا کرتے ہیں اور اللہ سے ڈرتے ہیں ان کے بس میں نہیں ہوتا کہ صدقہ خیرات کرسکیں۔ اس فارمولے کو جیل کے اندر اور عام دنیا پر لاگو کرلیں آپ کو ساری کہانی قید کی سمجھ آجائے گی۔ کچھ سیانے لوگ کہتے ہیں کہ دنیا مقافات عمل ہے ، مجھے تو لگتا ہے کہ عمل کسی اور نے کئے ہیں اور سزا ہمارے لیے ہے۔ کچھ قیدی بیماری کی بہانہ بنا کر قید کا مقام دنیا سے ہسپتال تک تبدیل کروالیتے ہیں اور باقی زندگی ہسپتال میں گزار دیتے ہیں پر بات قابل توجہ ہے کہ انکو موت وہاں بھی آجاتی ہے۔
کچھ قیدیوں کی ڈیوٹی پڑھانے پر لگی ہے جو باقی زندگی کے قیدیوں کو پڑھانے پر مامور ہیں۔ کچھ پڑھاپڑھا کر مرے جارہے ہیں اور کچھ پڑھ کر۔ جو نہیں پڑھے ہیں وہ انتہائی موج میں ہیں۔ کچھ دینی تعلیم پر مامور ہیں عجیب قیدی ہیں دین اسلام کی بجائے جس فرقے کی تعلیم دینے پر قید ہیں اسی کی تعلیم دیئے جارہے ہیں ،
کچھ سیاسی قیدی ہیں جو سیاست کرتے ہیں بڑے بڑے گھر بناتے ہیں بڑی بڑی گاڑیاں چلاتے ہیں اور غریب سے غربت دور کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ غریب قیدی بھی عجیب قیدی ہوتے ہیں۔ سیاسی قیدیوں کی باتوں کو سچ سمجھتے ہیں اور ہمیشہ غریب، غریب ہی رہتے ہیں اور غریب ہی مر جاتے ہیں۔
کوئی ان غریب قیدیوں کو بتائے کہ ہنر سیکھیں اپنی مدد آپ کریں اور غربت سے نکل جائیں اور سیاسی قیدیوں کی باتوں سے ہمیشہ گریز اور پرہیز کریں۔
کچھ محبت ،پیار اور عشق کے قیدی ہیں جنکی قید جھوٹے وعدوں ، ارادوں تک محدود ہوتی ہے۔ یہ سیاسی قیدیوں سے بھی زیادہ چالاک ہوتے ہیں ۔ یہ پیار بھری باتوں سے لوگوں کی زندگیاں تباہ و برباد کر جاتے ہیں۔ اور ایک پروجیکٹ کی ناکامی کے بعد دوسرا شروع کرنے کیلے تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔
جب ہم سب سزائے موت کے قیدی ہی ہیں تو پھر ہم اپنی زندگی کے طور طریقے رب کے بتائے ہوئے نظام کے مطابق کیوں نہیں گزارتے۔ دھوکہ، فراڈ، جھوٹ فریب چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔
سنا ہے ایک دن قیامت کا ہوگا حالانکہ یہاں ہر روز قیامت کا ہوتا ہے۔ اس روز سارے دنیا والے رب کے حضور پیش ہونگے اور یہ واحد حساب ہوگا جس میں گڑبڑ کی چالاکیوں کی اجازت نہ ہوگی اس کو یوم حساب کہا جائے گا ۔ ہر قیدی کا اعمال نامی اس کے ھاتھ میں ہوگا جن کو حساب دینا ہوگا وہ خود سب جانتے ہونگے تو پھر کیا منظر ہوگا کیا خوف ہو کیا کرو گے کیا بتاؤ گے۔ احتیاط کیجئے دنیا احتیاط سے گزارئیے ۔ یا پھر انتظار کیجئے کہ کب ہماری اور آپکی دنیا ختم ہوگی۔