واہگہ بارڈر کا تنہا مسافر

[ad_1]

بڑا سا دروازہ کھلا جس سے میں اندر داخل ہوا، سامنے موجود سیکیورٹی اہلکار نے میرا پاسپورٹ چیک کیا اور پھر میں پاکستانی حدود میں داخل ہو کر آگے چل پڑا ، کچھ فاصلے پر امیگریشن اور کسٹمز کا مرحلہ مکمل ہونا تھا، مجھے اپنے ملک آمد پر تحفظ اور فخر کا احساس ہوا۔

اب میں تھوڑا ریوائنڈ کر کے بتاتا ہوں، بنگلور سے امرتسر سے براہ راست فلائٹ کا ٹکٹ 20 ہزار بھارتی روپے سے زائد (تقریبا70 ہزار پاکستانی روپے) کا پڑ رہا تھا مگر بنگلور سے دہلی اور پھر دہلی سے امرتسر الگ فلائٹس سے آنے پر آدھی رقم کی بچت ہو جاتی،اس لیے میں نے دوسرا  آپشن چنا، صبح سوا 2 گھنٹے کی فلائٹ سے پہلے دہلی آیا، وہاں سے کچھ دیر بعد ایک گھنٹے کا سفر امرتسر کیلیے کیا۔

پھر ایئرپورٹ سے اٹاری بارڈر پہنچنے پر مزید 45 منٹ ٹیکسی پر لگ گئے، اگر آپ ایمیرٹس ایئر لائنز سے براستہ دبئی بھارت آئیں تو ٹکٹ ڈھائی لاکھ روپے سے بھی مہنگا پڑتا ہے، واہگہ کے راستے روانگی میں خصوصا پنجاب میں رہنے والوں کی بڑی بچت ہے، مگر بات وہی آ جاتی ہے کہ پہلے ویزا تو ملے، میں جب اٹاری پہنچا تو آمد کے وقت جیسے طریقہ کار پر عمل کر کے بارڈر کراس کر لیا، البتہ اس بار وقت کم لگا، بھارتی سائیڈ پر ڈیوٹی فری کے نام پر صرف ایک ہی دکان موجود ہے وہ بھی شراب کی ہے۔

ویسے بھی جب لوگ ہی نہیں آئیں گے تو شاپس کھولنے کا کیا فائدہ، میرا دورہ مختصر رہا کیونکہ پاسپورٹ تاخیر سے ملا اس لیے بھارت والا میچ مس ہو گیا، پھر وہاں کے جو حالات ہیں اس میں آپ کو ایک انجانا سا خوف بھی پریشان کیے رکھتا ہے،البتہ خوش قسمتی سے میرے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ نہیں ہوا، جو لوگ ملے سب اچھی طرح پیش آئے۔

جیسا کہ پہلے ذکر کیا تھا پاکستانی ٹیم کو سپورٹ بھی مل رہی ہے مگر درمیان میں کچھ لوگ ایسی حرکات کر جاتے ہیں جس سے مجموعی تاثر اچھا نہیں سامنے آتا، پاکستانی شائقین کو ویزوں کی عدم فراہمی سے بھارتی بدانتظامی واضح ہوئی ہے، صحافیوں میں سے صرف 7،8 کو ہی ویزوں کا اجرا ہوا، دیگر اب بھی انتظار کر رہے ہیں،جسے بھی آئی سی سی سے ورلڈکپ کی ایکریڈیشن ملی میڈیاکے ان تمام دوستوں کوبھارتی ویزاضرورملنا چاہیے۔۔

پی سی بی نے کسی صحافی کا ویزا تو نہیں لگوایا، البتہ  ایک فہرست ہے جس میں کچھ دیگر لوگ شامل تھے،میں پتا کرنے کی کوشش کررہا ہوں کہ وہ کون لوگ ہیں جن کے ویزے بورڈ کی سفارش سے لگوائے گئے، بھارتی ویزوں کے معاملے میں ہر دوسرے دن پی سی بی کے میڈیا نوٹ سے اچھا تاثر سامنے نہیں آ رہا،اگر وہ نہیں بلانا چاہ رہے تو پیچھے بھاگنا کیوں ضروری ہے؟اپنا بھی کوئی وقار ہوتا ہے۔

یقین کریں اگر مجھے ویزا نہیں ملا ہوتا میں تب بھی یہی کہتا،بارباردرخواست کرکے ان کی اناکو تسکین نہ پہنچائیں، ساتھ اب آئندہ کیلیے اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ بھارت اگر کسی ایونٹ کی میزبانی کرے تو بورڈ اپنی حکومت سے تحریری ضمانت لے کر دے کہ کھلاڑیوں، آفیشلز، شائقین اور میڈیا کو بروقت ویزے جاری کیے جائیں گے۔

اگر ایسا نہ ہوا تو آئی سی سی کیلیے تو میزبانی واپس لینا ممکن نہ ہو گا،البتہ پاکستانی ٹیم ایونٹ کا بائیکاٹ ضرور کر سکتی ہے یا نیوٹرل وینیو پر اپنے میچز کرانے کا موقف اپنانا ممکن ہوگا، اسی طرح جاری ایونٹ جیسی مشکلات سے بچا جا سکتا ہے، گرین شرٹس اب چنئی پہنچ چکے جہاں پیر کو افغانستان سے مقابلہ ہوگا، اسپن بولنگ کیلیے سازگار پچ پر پاکستان کا میچ بھارت نے افغان اسپنرز کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہی رکھا، یہاں کسی کو ترنوالہ سمجھنا مسئلہ بن سکتا ہے، یقینا یہ بات پاکستانی کھلاڑیوں کے ذہنوں میں بھی ہوگی۔

ٹیم کی مسلسل شکستوں نے شائقین کو بھی بددل کر دیا، میں پہلی بار دیکھ رہا ہوں کہ بابر اعظم بھی اب زیرتنقید آ رہے ہیں، سوشل میڈیا کے ’’جاں نثار‘‘ ان دنوں خاموش ہیں، یہ ٹھیک ہے کہ بابر کی بیٹنگ اور کپتانی اچھی نہیں چل رہی مگر ناکامیوں کا تمام ترملبہ ان پر نہیں گرانا چاہیے، ٹیم ڈائریکٹر مکی آرتھر ڈالرز لینے کے سوا کیا کام کر رہے ہیں۔

وہ پورے سیزن میں ڈاربی شائر کاؤنٹی کو کوئی میچ نہ جتوا سکے،اب پاکستان کیلیے کارکردگی بھی سب کے سامنے ہے، ان کے دوست ہیڈ کوچ بریڈ برن بھی مفید ثابت نہیں ہو رہے، سب سے بڑا سوالیہ نشان بولنگ کوچ مورن مورکل کی افادیت پر ہے، یہ کوچز مشترکہ طور پر ماہانہ کروڑوں روپے لے رہے ہیں مگر پرفارمنس صفر ہے۔

اسی طرح بغیر کام کیے 25 لاکھ روپے ماہانہ لینے والے انضمام الحق کا کیا کنٹری بیوشن ہے؟ وہ بھارت کیوں گئے تھے یہ بات اب تک کوئی نہیں سمجھ سکا، ان کی جانب سے ٹیم کے معاملات میں مداخلت سے ہی معاملات بگڑے، اب وہ اپنے من پسند کو جونیئر کوچ نہ بنانے پر بورڈ سے ناراض ہیں اور تیسری بار مستعفی ہونے کی دھمکی دے چکے، حالانکہ اگر ایسا کرنا ہوتا تو دھمکی نہ دیتے بلکہ عمل کرتے، پی سی بی کی مجبوری ہائی پروفائل سابق کرکٹرز کا ساتھ حاصل نہ ہونا ہے،اسی لیے انضمام کے اتنے نازونخرے اٹھائے جا رہے ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے کئی بڑے سابق کرکٹرز ہی کھیل کے ساتھ مخلص نہیں ہیں، انھیں خوب پیسہ چاہیے، شعیب اختر کی ہی مثال لے لیں، یوٹیوب پر ویوز سے چند ہزار ڈالرز کمانے کیلیے بابر اعظم کو دماغ سے عاری ریلوکٹا کپتان قرار دے دیا،کیا آپ نے انگلینڈ کے کسی سابق کرکٹر کی جانب سے اپنی ٹیم پر ایسی تنقید سنی، شعیب کو یہ بھی دکھ ہے کہ بابر نے ان کے قریبی دوست کی کمپنی کو ایجنٹ بنانے سے انکار کر دیا تھا، اسی لیے جب بھی موقع ملے دل کی بھڑاس نکال دیتے ہیں۔

حالانکہ سابق کرکٹرز کا کام مشکل وقت میں ٹیم کو سپورٹ کرنا ہے، اب بھی پاکستان کے پاس سیمی فائنل میں رسائی کا پورا موقع ہے، اس کیلیے بقیہ میچز میں  عمدہ پرفارم کرنا ہوگا، ماضی میں بھی گرین شرٹس ٹھوکریں کھا کر سنبھلتے رہے ہیں اور اس بار بھی ایسا ممکن ہے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)



[ad_2]

Source link