آھٹ تحریر محمد اظہر حفیظ

آھٹ کی محسوسات کا بھی ایک اپنا مزا اور نشہ ہے۔ میں اکثر اپنے سانس کی آواز یا دل کی دھڑکن سے بیدار ہو جاتا ہوں۔ ایک دن تو عجیب ماجرا ہوگیا ، سانس بھی بند تھی اور دل کی دھڑکن بھی بند تھی میں سویا ہوا تھا آواز کوئی نہ تھی اب سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں سویا ہوا ہوں یا مرا ہوا ہوں پھر آہستہ آہستہ کچھ سرکنے کی آواز آنا شروع ہوئی تو میں ڈر گیا کیوں کہ آس پاس تو کچھ بھی نہ تھا۔ جب آسمان کی طرف دیکھا تو سمجھ آئی چاند بادلوں کے اندر سے سرک کر باہر آرہا تھا۔ جب آواز برداشت سے باہر ہوگئی تو کانوں پر تکیہ رکھ کان بند کرلیے پھر سب کچھ گھومنے لگ گیا پہلے پہل تو میں سمجھا شاید چکر آرہے ہیں پھر سمجھ آئی کہ شاید زمین گھوم رہی ہے پر پہلے تو کبھی محسوس نہیں ہوئی۔ ذھن میں یکدم آیا غلطی تو میری ہے چاند کو تواشارے سے روک دیا کہ مت حرکت کرو شور ہوتا ہے نظام کائنات تو چلنا ہی ہے اب زمین گھوم کر اپنی چکر مکمل کر رہی ہے ۔ سارے دنیا کو شکر کرنا چاہیے کہ میں نے سائنس نہیں پڑھ رکھی ورنہ کائنات میں ھلچل مچا دیتا۔ پر بھلا ہو جنرل سائنس کا جو آٹھویں تک پڑھ رکھی ہے اسی کے تجربے کرتا رہتا ہوں ۔ میں دنیاکو اپنی لیبارٹری سمجھتا ہوں اور میرےلیے آٹھویں تک پڑھی ہوئی جنرل سائنس ہی کافی ہے۔ جس طرح فوج میں سب سے بڑا عہدہ حرنل کا ہوتا ہے اور سائنس میں سائنسدان کام۔ لیکن میں تو سائنس کا جنرل ہو۔ اب کسی کو اپنے کون کون سے تجربے بتاوں دنیا حیران رہ جائے۔ مجھے یاد ہے ایک صاحب کے پاس مرغی خانے پر ایک ملازم تھا ۔ مرغی خانے میں 100 دیسی مرغیاں تھیں اور وہ پانچ سال تک مسلسل 100 انڈے دیتی رہیں۔ جس پر ملازم کو بہت سی اور سہولتوں کے ساتھ سالانہ بونس نقد کی شکل میں ملتا تھا۔ اور بہت کوششوں کے باوجود اس ملازم کی ٹرانسفر نہیں ہوتی تھی کیونکہ اس جگہ اسے سہولتیں بہت تھیں ۔ رہنے کو گھر کھانا وغیرہ سب ملتا تھا اور مالک بھی اس کی وفاداری کے گن گاتا تھا۔ اصل میں وہ جنرل سائنس کا فارمولہ لگا ہوا تھا ۔ جس دن ملازم پہلے دن نوکری پر آیا تو مجھ سے مشورہ کیا۔ کیونکہ مشورہ امانت ہوتی ہے تو میں نے بھی اس کو امانت داری کا سبق دیا کہ جو بھی ہوجائے انڈے کم نہ ہونے دینا۔ اس نے پوچھا جنرل سائنسدان صاحب وہ کیسے ۔ عرض کیا انڈے روز سو آنے چاہیں تم سدا یہیں رہو گے۔ پر صاحب یہ کیسے ممکن ہے۔ بلکل ممکن ہے جنرل سائنس سے۔ بتاو تو سہی ۔ فارمولہ یہ ہے کہ مرغیاں جتنے بھی انڈے دیں تم نے 100 پورے صاحب کے گھر پہنچانے ہیں۔ وہ کیسے سال بعد جو اچھی کارکردگی پر بونس ملے گا اس کے انڈے بازار سے لیکر روزانہ کی بنیاد پر شامل کرتے جاو باقی سہولتوں کا مزہ اٹھاو ۔ اب روز جتنے بھی انڈے آتے وہ اس میں بازار سے انڈے لا کر شامل کرتا اور صاحب کے گھر دے آتا ۔ پانچ سال بعد صاحب نے کہا یار تمہاری سروس بہت شاندار ہے ۔ جی سر استادوں کی دعا ہے۔ پر یہ تم کرتے کیسے ہو کیا سر پانچ سال میں 25 مرغیاں بیماری سے مر گئیں پر انڈے 100 ہی آتے ہیں ۔ یہ کیا سائنس ہے ۔ سر یہ جنرل سائنس ہے اسی سائنس پر پاکستان چل رہا ہے۔ کام سارا بخوبی چل رہا ہے بس آھٹ نہیں ہونی چاہیے ۔ لیکن وہ کیوں۔ سر قوم جاگ جائے گی۔ اب کس کس چیز کو روکیں زمین کو روک دیا سورج کو روک دیا چاند روک دیا اگر یہ سب چل پڑا تو بہت نقصان ہوجائے گا۔ قیامت آجائے گی۔ اچھا تو یہ تمھاری جنرل سائنس کی وجہ سے دشمن چاند پر پہنچ گیا ۔ چلتے چاند پر وہ نہیں پہنچ سکتے تھے تم نے اشارہ کرکے کھڑا کر دیا اور انھوں نے فائدہ اٹھا لیا۔ سر جی مر جائیں گے چاند پر وہاں ہوا بھی روکی ہوئی ہے اسی لیے ہر چیز معلق ہے چاند پر۔ سانس کیسے لیں گے۔ سر شکر کریں سورج پر نہیں چلے گئے انکے رنگ کالے ہوجانے تھے وہاں گرمی بہت ہے۔ اچھا اب جنرل سائنس آگے کیا کہتی ہے۔ جی سر جنرل سائنس صاحب سے پوچھ کر بتاتا ہوں ۔ کیونکہ جنرل سائنس لاجک پر نہیں جنرل پر قائم ہوتی ہے ۔ لگتا ہے جنرل سائنس فیل ہورہی ہے۔ وہ کیسے ۔ سر بغیر پوچھے بارش شروع ہوگئی ہے، بجلی چمک رہی ہے،لگتا ہے اب ان دونوں کی بھی خیر نہیں انکی غلطی ہمیں خشک سالی اور قحط کی طرف لے جائے گی احتیاط کریں بجلی سے کہیں خاموشی سے چمکے آھٹ نہ ہو بارش بھی خشک ہو۔ صاحب کو گیلا پن پسند نہیں ہے۔ کہیں قوم پھسل نہ جائے ۔ گرنے کی آھٹ سے قوم جاگ نہ جائے ۔ اب ڈیوٹیاں لگ گئی ہیں فیصلہ ہوگیا ہے آھٹ قابل گرفت جرم ہے۔ احتیاط کیجئے اپنی اور قوم کی سلامتی کیلئے۔