طلسماتی دنیا تلخیص اظہر نیاز

یہ کہانی امیر حمزہ کی ہے جو کہ اپنے وقت کا بادشاہ ہے – وہ ایک دوسرے بادشاہ سے لڑ رہا ہے جس کا نام لقا ہے. وہ بادشاہ جو ہے وہ اپنےآپ کو خدا سمجھتا ہے اور امیر حمزہ چاہتا ہے کہ وہ اس خدائی کے دعوے کو چھوڑ دے اور اللہ کی خدائی کو تسلیم کر لے لیکن ایسا ابھی تک ہو نہیں رہا .وہ جس ملکمیں بھی جاتا ہے اسے فتح کرتا ہے اور لوگ خوف کے مارے اس کےآگے سجدہ ریز ہو جاتے ہیں اور اس طرح کئی ملک جو ہیں اس کو اپنا بادشاہ اور خدا سمجھتے ہیں .

امیر حمزہ اسی سوچ میں بیٹھے ہوئے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ کس طرح سے لڑ کر اس کو اس بات پہ قائل کر لوں کہ وہ خدا کو خدا تسلیم کر لے اور اللہ کو اپنا معبود تسلیم کر لے لیکن لقا جہاں بھی جاتا ہے لوگ اس کو خدا سمجھتے ہیں اور وہ ملکوں کے ملک فتح کرتا ہوا چلا جاتا ہے. وہ اسی سوچ میں غرق تھے کہ ان کا بیٹا جو بدی وہاں اتا ہے اور آ کر کہتا ہے کہ میں شکار پہ جانا چاہتا ہوں. امیر حمزہ کہتا ہے کہ نہیں میں خود ابھی پریشان ہوں اور میں نہیں چاہتا کہ تم بھی کسی پریشانی میں مبتلا ہو جاؤ .وہ اس کو اجازت نہیں دیتا وہ جا کر اپنی ماں سے کہتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ بابا سے شکار کی اجازت لے دیں. اس کی ماں امیر حمزہ کے پاس آتی ہےاور سفارش کرتی ہے کہ اس کے بیٹے کو شکار پہ جانے کی اجازت دی جائے. وہ اپنی محبوب بیوی ملکہ امبر کی بات مان کرشہزادے کو اجازت دے دیتے ہیں مگر فرمایا کہ یہ صحرہ تمام ساحران جہاں کا مسکن ہے اس لیے اجازت نہیں دیتا تھا کہ شہزادہ کسی مصیبت میں مبتلا نہ ہو جائے. تمہارے کہنے سے ایک روز کی اجازت دیتا ہوں ایک روز کے بعد آ جائیں. زیادہ عرصہ نہ لگائیں .
شہزادے نے اپنے والد کا حکم کو قبول کیا اور سامان شکار رات بھردرست ہوتا رہا .جس وقت مشرق سے صبح طلوع ہوئی تو وہ سب لوگ شکار کے لیے روانہ ہو گئے.
دور صحرا میں جا رہے تھے کہ سب لوگوں نے ایک ہرن کو دیکھا جو چوکڑیاں بھرتا ہوا جا رہا تھا سب لوگ اس کے پیچھے نکلے باقی تو ہیچھے رہ گئے لیکن شہزادہ اس کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا دور نکل گیا. آخر اس نے جا کر ایک جگہ اس کو پا لیا اور جبشہزادے نے ایک تیر نکال کر ہرن کو مارا اور فورا گھوڑے سے اتر کر خنجر سے اسے ذبح کر ڈالا.جوں ہی خنجر اس کے گلے پرچلا ہر طرف اندھیرا چھا گیا.اور آواز یہ آئی کہ اے فرزند حمزہ تو نے بڑا غضب کیا کہ قتل کیا . یہ سرحد طلسم. ہوشرباہے. یہاں سے بچ کر جانا اب دشوار ہے یہ غزال جادو کی جگہ ہے .
شہزادہ نے دیکھا کہ تمام صحرا گرد و غبار سے تاریک ہے اندھیوں کا طوفان برپا ہے شہزادے پر بیہوشی طاری ہوئی اور پھر جو آنکھ کھلی اپنے کو قید میں پایا. سر تفکر پر جھکایا .

یہ بھی جاننا چاہیے یہ بھی جاننا چاہیے کہ عمر و عیار کے بیٹے امیر حمزہ کے بیٹوں کے عیار ہیں. کیونکہ امیر کےہاں لڑکا جب شہزادی سے ہوتا ہے اس کی وزیر زادی سے عمرو کے یہاں لڑکا ہوتا ہے اور اس شہزادے کا وہی عیار ہوتا ہے.
جب وہ تاریکی دور ہوئی لاش بدی الزماں کی خاک پر پڑی ہے وہ چاندی سی صورت میں خون میں بھری ہے. واضح ہو کر شہزادہ کی خبرجب سرحد طلسم ہوشربا میں پہنچی تو مالک ظلسم افراسیاب نے محافظ ظلسم ملکہ شرارہ جادو کو حکم دیا کہ شہزادے کو گرفتار کرے اور ان کی صورت کا پتلا بزور سحر بنا کر شہزادے کی جگہ ڈال دے. تا کہ دوسروں کو عبرت ہو اور طلسماتی دنیا کے اندر انے کی جرات نہ کریں.
اچھا جب اندھیرا چھٹا تو دیکھا کہ وہاں ایک لاش پڑی ہوئی ہے اور وہ سب جو ہیں یار تھے وہ بیٹھ کر اس کو رونے لگے اخر اسے اٹھا کر لائے اور امیر حمزہ کے پاس لے کر ائے اس کے لشکر گاہ میں امیر حمزہ نے اس کو دیکھا تو کہا کہ فورا میرا گھوڑا تیار کرو تاکہ میں اس کے قاتل کو تلاش کروں جو اس کے ایار تھے وہ دوست تھے جو سات سپاہی تھے انہوں نے کہا کہ ہمیں تو کچھ پتہ نہیں چلا چونکہ اندھیرا ہو گیا تھا بالکل اور جب وہ اندھیرا چھٹا تو وہاں جو ہے یہ لاش پڑی ہوئی تھی جسے ہم اٹھا کر لے ائے
میں جاؤں اب امیر حمزہ نے کہا کہ میں جاؤں اور اس کے قاتل کا سر قتل کر کے جو ہے وہ لے کر اؤں عمروں نے عرض کی کہ اس شہر یار ایک کو میں نے سنا ہے کہ شہزادے کو کسی انسان نے نہیں شہید کیا بلکہ صحراہ تاریک ہو گیا کچھ معلوم نہیں سوائے اس کے کہ یہ لاشہ بے سر ملا امیر نے فرمایا کہ واللہ اس میں کچھ اسرار ہے اس خاک سے اگاہ صرف پروردگار ہے اللہ جانتا ہے تو نو شیروان کو یہ کہا گیا وہاں ان کے کچھ خواجہ تھے انہوں نے کہا اپنے لڑکوں کو ان کے امیر کے ساتھ کر دیا ہے کہ وہ بطور ملازموں کے ہر وقت مستد رہتی ہیں چنانچہ انہوں نے جب ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اے حضرت خواجہ دریا دل فرزندان خواجہ نے تختہ تفکر پر قرہ تکل کو پھینکا اور کچھ سوچ بچار کر کے ایک زائچہ کھینچ کر نظرا سال کا گرو جو اشکال رمل سب ملاحظہ کر کے
پھر انہوں نے حساب کتاب لگایا زائچہ بنایا تو انہوں نے کہا کہ جو لاش اپ کے سامنے ائی ہے معاش کے اٹے کی تصویر بنائی ہے اپ اسم اعظم پڑھ کر پانی پر پھونکیے اور اس لاش پر چھڑک دیجیے پھر قدرت خالق کا تماشہ دیکھ لیجئے امیر نے اس میں اعظم پانی پر دم کر کے لاش پر چھڑکا وہ لاش ماش کے اٹے کی تصویر نظر ائی امیر نے گردن اپنے سجدہ باری کے اگے جھکائی اور کہا کہ یا اللہ تو نے شکر ہے کہ میرے بیٹا جو ہے وہ زندہ ہے خواجہ زادون کو خلت فاخرہ دیکھ کر رخصت فرمایا اور لاش کو پھینکوا دیا لشکر میں شور و فریاد جو بلند تھا وہ موقوف ہوا سب نے جان تازہ پائی زندہ رہنے کی شہزادی کی خوشی منائی امیر نے عمروں کو بلایا اور بہت کچھ زر و جواہر دے کر واسطے خبرگیری شہزادے کے روانہ کیا عمدو نے
عمرو نے بہت ہوشیاری کے ساتھ اپنے جسم کو اراستہ کیا زمبیر اور جالی الیاسی اور گلیم عیاری اور کمند اصفی اور دیو جامہ اور کنزوری بتادے منڈیری درمیالی وغیرہ کو سنبھالا اور سب تحفے اور تبرک جو کوہ سرندی پر تھے ساتھ لیے راوی کہتا ہے کہ جب لشکر امیر حمزہ ہندوستان کو تصویر کرنے ایا تھا اسی زمانے میں عمروں نے مزار انبیاء علیہ السلام کی زیارت کی اور وہاں عمرو کو ایک غنودگی ائی عالم خواب میں جمال باکمال چند انبیاء کا دیکھا اور عمروں نے امرو سے انہوں نے فرمایا کہ ہمارے مزار کے روزے میں زنبیل وغیرہ یاری رکھے ہیں انہی کے لیے زمبیر ایک کیس کیسیہ ہے کہ علاوہ اس دنیا کے ہر عالم اسم اباد ہے جب تم چاہو گے اس میں سے ہر چیز جو مانگو گے وہ نکلے گی اور جو چاہو گے وہ اس میں رکھو گے گلی میں
اور گلیم عیاری ایسی ہے کہ جب تم اسے اور لو گے تم سب کو دیکھو گے اور تمہیں کوئی نہ دیکھے گا اور جال الیاسی کسی پر سخت صفت یہ رکھتا ہے کہ اگر کوئی وزن کی چیز ہو مگر جب تم جال پھینکو گے وہ سوا سیر کی ہو کر اس میں ا جائے گی اور جب کہیں منڈی کھڑی کرو گے اس کے نیچے بیٹھو گے کوئی گرفتار نہ کر سکے گا اس کے اندر ائے گا الٹا ہو کر لٹک جائے گا اور کمند اصفی کو پھینک کر جتنا کہو گے کٹ جائے گی اور بڑھنے کو کہو گے تو بڑھ جائے گی اور کسی چیز سے وہ نہ کٹے گی نہ ٹوٹے گی اور دیو جامہ جب پہنو گے سات رنگ بدلے گا کبھی سبز ہوگا کبھی سرخ زرد وغیرہ اس طرح جتنی چیزیں جینے ہیں سب کرامات رکھتی ہیں عمرو کو جب یہ بشارت ہوئی تو وہ ان اشیاء کو لے لیا اس نے انشاء کو لے لیا اس کا دفتر اول جن ہو گیا خلاصہ ناظرین فسانہ ان عشاء کا جہاں ذکر
عمر یار نہیں ان تمام چیزوں کو اپنے جسم پر اراستہ کیا اور شہزاد بدیہ الزماں کے تلاش میں نکل کھڑا ہوا
دونوں اک