حیاء اور اس کے تقاضے۔ تحریر: قانتہ رابعہ

اللہ خالق کائنات نے انسان کی تخلیق سے پہلے بے شمار مخلوقات پیدا کی تھیں۔۔لیکن حضرت انسان کی پیدائش سے پہلے ہی اشرف المخلوقات کا تاج اس کے سر پر رکھنے کا فیصلہ ہوچکا تھا۔۔یہ تاج اس کے علم اور عقل کے علاؤہ اطاعت کی وجہ سے اسے نصیب ہوا۔۔انسان۔کو جسم اور روح کا مرکب بنایا گیا۔۔جسم کی بہتری کے لیے بھی ہدایات تعلیمات سے مالا مال کیا گیا کائنات کی ساری مشینری ہی اس کی روزی روٹی کے لیے چالو کردی گئزمین آسمان درخت پہاڑسمندر،بیابان سب اس کے جسمانی سکھ اور آرام کے لئے مصروف عمل کردیے گیے تو روحانی پہلو کو اس سے بھی بڑھ کر فضیلت دی گئی۔۔۔
الہامی کتب،اور پیغمبروں کی آمد کا پہلے انسان کے ساتھ ہی سلسلہ شروع ہوگیا
انسان کے خلق (زبر کے ساتھ) اس کے خلق(پیش کے ساتھ) کی درستگی کا تا قیامت بندوبستی کردیا گیا
خلق (زبر کے ساتھ) سے مراد انسان کی ظاہری شکل و صورت اور خلق(پیش کے ساتھ) سے مراد اس کی باطنی خوبصورتی یا عادات ہیں
اللّٰہ نے انسان میں اپنی کچھ صفات کی جھلک ڈالی ہے صبر،شکر،ایثار،سچای،ایمانداری کے ساتھ بے شمار اوصاف ہیں جن میں سے نمایاں شرم و حیا ہے۔۔۔شرم و حیا انسان کے اندر پیدائش کے ساتھ ہی نمو پاتی ہے اس لیے جب بچہ پیدا ہوتا ہے خواہ وہ کسی بھی قوم یا مذہب سے تعلق رکھتا ہو جب اس کی نیپی بدلی جاتی ہے تو بچہ بے ساختہ اپنی ٹانگیں اکٹھی کرتا ہے اس کا مطلب ہے کہ وہ ننگا نہی۔ ہونا چاہتا۔احادیث مبارکہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،،انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق۔۔،،بخاری
سیدہ عائشہ صدیقہ نے فرمایا،،وہ مکارم اخلاق دس ہیں۔۔۔،،ورآسھن الحیآء۔۔۔(مشکاہ المصابیح)
اور ان دس مکارم اخلاق کا سر حیائہے۔
ایک اور جگہ پر ابو سعید خدری فرماتے ہیں۔۔،،آپ صلی اللہ علیہ وسلم پردہ والی کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیادار تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز کو ناپسند فرماتیرتو زبان سے نہ کہتے بلکہ ہم لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی کیفیت سے پہچان لیتے کہ یہ چیز آپ کو نا پسند ہے،،۔۔بخاری
یہ حیا کیا ہے؟ یہ ہر انسان کے اندر ایک فطری جذبہ ہے جس کے بہت سارے مفہوم ہیں۔۔کسی بھی کام کو لوگوں کے سامنے کرتے ہوئے جو جھجھک دل میں پیدا ہوتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے۔۔۔اس جھجھک کو حیا کہتے ہیں
حیا کی صفت تمام انبیائمیں موجود تھی۔۔پچھلی کتب میں بھی حیا کی واضح تعلیمات موجود تھیں جہاں تک کہ صحیح بخآری کی حدیث۔۔3484. میں موجود ہے
جب تو بے حیا بن جاے تو جو جی چاہے کر،،
(اب ہمارا تمام سوشل میڈیا ایک ہی نقطہ کے گرد گھوم رہا ہے۔۔جیسے چاہو جئیو۔۔)
جب تک کسی بندے کے اندر حیا والی صفت موجود ہے وہ عیب دار کام نہیں کر سکتا لیکن جب وہ بے حیاء� کی طرف لپکتا ہے تو اس میں اور جانوروں میں کوی فرق نہیں رہتا
(آج یہی آلمیہ درپیش ہے کیا بچے کیا نوجوان کوی بھی غلط کلام سے روک ٹوک کو پسند نہیں کرتا)
۔۔حیا کی اقسام
1۔۔حیائے فطری
2.. حیائے کسبی
حیاے فطری جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہر انسان میں ہوتی ہے وہ پیدائشی جھوٹا،خائن یا بے شرم نہیں ہوتا بس ایک مرتبہ کسی بھی غلط کام کے بعد احساس ندامت نہ ہونا اس کو بے حیائاور بے شرمی کے زینے پر چڑھا دیتا ہے یہ فطری حیائکا جزبہ۔،محبت کے اظہار کی طرح کسی میں کم اور کسی میں زیادہ ہوتا ہے۔حیائے کسبی سے مراد یہ ہے کہ کوشش کر کر کے اپنے آپ کو زبان ناک پیٹ،شرمگاہ وغیرہ کی حفاظت کے لیے آمادہ کرنا۔قرآن مجید میں حق تعالیٰ کا ارشاد ہے۔۔واللہ لا یستحیی من الحق۔۔(اور اللہ حق بات کہنے میں حیا نہیں کرتا)
اور ہم ناحق باتیں بے سوچے سمجھے کرتے ہیں،حق بات کہنے میں سو حجت نکال لاتے ہیں
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں جن دو لڑکیون کا تزکرہ کیا ہے وہ قیامت تک کے لیے باعث سعادت ہے اور ہمارے ذہنوں میں حیا کا جو محدود اور جزوی مفہوم ہے اس کی تصحیح ہے ہم حیا سے مراد عام طور پر شرما کے چلنا یا نظر جھکانا کو لیتے ہیں۔۔قران اور احادیث دونوں میں اس کی نفی ہے۔۔وہ حیا سے چلتی ہوی آی سے مراد دوپٹہ کا پلو مروڑتی یاشرماتی ہوی آی نہیں بلکہ پورے وقار اور اپنی حفاظت کے ساتھ چلتی ہوی آی مراد ہے۔اگر انسان سے یہی وقار اور نیکی کی حفاظت کا جزبہ ختم ہو جائے تو وہ جانور بن جاتا ہے۔سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔،،جس کے اندر حیا کم ہو اس کے اندر تقوی بھی کم ہوتا ہے،،
(تقوی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوے گناہ سے باز رہنے کو کہتے ہیں)حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا۔۔،،جو شخص بندوں سے حیا نہیں کرتا۔۔وہ اللہ تعالیٰ سے بھی حیا نہیں کرتا (بندوں سے حیا ان کو اجزائرسانی ان پر الزام تہمت یا ان۔کو مشکلات سے بچانا ہے ان کے حقوق کی درست ادائیگی بھی اسی میں شامل ہے)سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اکثر خطبہ دیتے ہوے فرمایا کرتے۔
۔،،یا معشر المسلمین استحیو من اللہ،،اے مسلمانو کی جماعت! اللہ تعالیٰ سے حیا کیا کرو،،
اللہ سے حیائکیسے پیدا کی جاے؟بتانے والوں نے بے شمار طریقے بتائے ہیں مگر بہترین یہی ہے کہ اپنے دل کو اللہ کی یاد کے قابل بنایا جائے۔ اپنے گناہوں پر نادم ہوا جائے۔حیا پاکیزگی اور طہارت کی تمام دعاؤں کا اہتمام کیا جائے۔حیائکے لیے باقاعدہ کوشش کر کے ہوم ورک کیا جائے۔اپنے موبائل فون بلکہ چھوٹی بڑی ہر سکرین کو ایسی تحریر یاتصویر سے داغدار نہ کیا جائے جو اللہ کی نظر میں شرمسار کروائے۔اس لیے کہ سیدنا سلمان فارسی نے فرمایا۔۔،،جب اللہ کسی بندے کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس سے حیا کو نکال دیتے ہیں،،
یہاں ہلاک کرنے سے مراد صرف موت نہیں بلکہ اس کی روحانی زندگی کا خاتمہ بھی ہے۔۔اس شخص کے دل سے اللہ تعالیٰ کا خوف اور ڈر نکل جاتا ہے۔۔اور جب اللہ تعالٰی کا ڈر نکل جاتا ہے تو انسان اسفل السافلین بن جاتا ہے،رشتوں کی پہچان کھو دیتا ہے (اولڈ ہومز کا قیام۔۔دنیوی مال و متاع کے لیے سگے بھائیوں کا قتل،بہنوں سے قطع تعلقی کے علاؤہ بھی بہت کچھ شامل ہے)
پھر انسان حرام حلال اور جائز ناجائز کا فرق بھول جاتا ہے۔
اسے محرم اور غیر محرم رشتوں میں تمیز نہیں رہتی۔پڑوس میں غربت سے بلکتے سسکتے وجود فراموش ہوجاتے ہیں تمام کوششوں کا مرکز و محور صرف اور صرف اپنی خواہش نفس کی تکمیل ہوتی ہے۔معیار بندگی نیچے سے نیچے اور معیار زندگی اوپر سے اوپر چلا جاتا ہے۔ایک کمرے میں بیٹھ کر سگی اولاد اور والدین موبائل فون کی وجہ سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔
کیا اسے ہلاکت نہیں کہتے؟؟؟
سورہ النور میں واقعی افک کا تزکرہ کرتے ہوے حق تعالیٰ نے ان لوگوں کو جو اس قصے کا زکر دوسروں سے کر رہے تھے کے لیے۔۔۔ان تشیع الفاحشہ۔۔بے حیای پھیلانے والے کہہ کر کیا ہے۔اگر ایک قصے کو جو فی زمانہ زبان زد عام ہے۔۔۔دوسرا شخص تیسرے کو بتاتا ہے تو حق تعالیٰ نے اس کے لیے کتنے سنگین اور سخت الفاظ استعمال کیے جسے آج کا کوی انسان پسند نہ کرے۔۔فحاشی پھیلانے والے۔۔۔۔صرف ڈسکس کرنا فحاشی ہے تو آج جو دن رات تی وی ڈرامے فلمیں اور وڈیوز پیش کررہے ہیں وہ کس زمرہ میں آتا ہے
ثابت یہی ہوا کہ حیا پیدا کرنے کے لیے زبان کی حفاظت بہت ضروری ہے۔اس لیے کہ ایک طویل حدیث میں (سنن ترمذی۔2575) حضرت عبداللہ بن مسعود نے روایت کیا ہے ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تم سب اللہ سے حیا کیا کرو جیسا کہ حیا کرنے کا حق ہے،،انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم الحمد للّٰہ اللہ سے حیا کرتے ہیں،،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،،یوں نہیں بلکہ اپنے سر۔اور اس کے قریبی اعضائکی حفاظت کرو۔۔حدیث مبارک میں ان تحفظ الراس وما وعی کے الفاظ بہت گہرا مفہوم رکھتے ہیں حدیث میں پیٹ دل منہ کے الفاظ بھی ہیں مگر سر میں سوچیں پیدا ہوتی ہیں۔۔خیا آتے ہیں اور جب سوچیں ہی پاکیزہ نہ رہیں خیالات ہی پر قابو نہ رہے تو انسان،انسان نہیں رہتا ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ سوشل میڈیا کی ہر چیز ہمارے اخبارات،جرائد سب سوچ کو آلودہ اور منتشر کرنے والے ہیں۔جس کووہ سوشل میڈیا کی آزادی کہتے ہیں وہی بے حیاء اور بربادی ہے۔المیہ یہ نہیں کہ لٹ رہے ہیں المیہ یہ ہے کہ لٹنے کا احساس ختم کردیا گیا ہے۔۔۔بے حیای کو فیشن اور آرٹ کا خوبصورت نام دے دیا گیا ہے۔جس حدیث میں حیا کو ایمان اور ایمان کو جنت سے لازم و ملزوم قرار دیا گیا ہے وہ صرف پڑھنے کی حد تک ہے۔اللہ کی ناراضگی کی پرواہ ہے نہ اپنی ہلاکت کا ڈر ہمارے مال جسم،صحت گھر بار ہر چیز سے برکت بھی حیا سے جڑئہوی تھی
آپ خود سوچئیے سمجھ میں سارا ربی پیمانہ آجاے گا۔سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے جس لڑکی سے شادی کی اس کی قرآن نے واحد وجہ حیا براہ تھی سشکل صورت رنگ قد کاٹھ سب کو ایک طرف کر کے سوچیے کہ۔کہاں لکھا ہے کہ حیا دار تھی تو ضرور ہی گوری رنگت لمبا قد یا سنہرے بال ہوں گے۔۔۔انتخاب کی ایک ہی وجہ حیا براہ تو اس حیا کے انتخاب سے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو گھر بھی مل گیا روزگار بھی اور اہل و عیال بھی اس سے ثابت ہوتا ہے حیا سب خوبیوں کی سردار ہے تو آئیے دیکھتے ہیں اس حیاے گم گشتہ کو واپس کیسے لایا جاے تاکہ ہماری روٹھی برکتیں لوٹ کے آسکیں۔۔گھر میں چھوٹے بچوں کے سامنے بچوں کی پیدائش،حمل یا ازدواجی زندگی کے لیے محتاط الفاظ استعمال کیے جائیں۔۔غارت گر ایمان ڈرامے فلمیں تو ایک طرف کارٹون بھی پہلے بڑے دیکھ کے اندازہ لگائیں کہ دیکھنے کے قابل ہیں یا نہیں
۔۔خواتین خاص طور پر اپنے لباس کو ساتھ رکھیں۔۔کپڑے یا لباس کے انتخاب میں حیا سب سے پہلے۔۔کہ جو لباس سورہ الاعراف میں انسان کے لیے نازل ہونے کاتزکرہ ہے وہ ساتر تھا۔۔۔مکمل بازو اور بالکل چپکا ہوا نہ ہو۔
اسلام میں لباس کی دو خصوصیات بیان کی گئی ہیں
1۔۔وصاف نہ ہو یعنی تنگ نہ ہو (ہم فٹنگ درست نہ ہو تو ٹیلر کے منہ پر مارتے ہیں)
2..۔۔شفاف نہ ہو یعنی باریک ایسا نہ ہو کہ جسم کی رنگت چھلکتی نظر آتے
۔۔گھر کے اندر اور باہر دونوں جگہوں پر محرم و نامحرم کا خیال رکھنا ضروری ہے۔نامحرم صرف چچازاد،ماموں زاد،پھوپھو زاد یا بہنوی ہی نہیں ہوتے آپ کے گھر کے ملازمین اور وہ دکاندار جن سے تعلق نکال کے قیمت کم کروایا جاے وہ بھی۔امحرم ہیں۔ ان سے بھی نپی تلی گفتگو ہو چہرہ حجاب میں ہو آواز سے کوی خاص تاثر نہ ابھرے۔۔۔ہماری کچھ اقدار اور روایات ہماری عصمت و عفت کی حفاظت کے لیے بہت اہم تھیں مثلاً عورت گھر سے نکلتی تو منہ ڈھانپنے کے بعد نکلتی،جب شادی ہوتی تو دولہن کے اوپر بڑی سی چادر ڈا دی جاتی کہ جس محرم کے لیے زیب و زینت کی گئہے بس وہی دیکھے یہ ہر ایرے غیرے کے دیکھنے کی چیز نہیں مگر آج شرفاء اور دینداروں کے ہاں بھی نکاح مسنونہ کے نام سے حیا کا جنازہ نکال دیا جاتا ہے۔۔کوشش کریں کہ یہ شادیاں دائمی برکتوں والی ہوں اور برکت کے حصول کے لیے رب کی رضا مندی ضروری ہے۔۔دوٹوک فیصلہ کیا جاے تو وقتی طور پر معاملہ نہ بھی سلجھے مگر بالآخر حق کی پیروی کرتے ہوئے ہی سکون ملتا ہے۔۔۔۔۔آپ نے دیکھا ہوگا کہ برصغیر میں عورت ننگے منہ نہیں نکلتی تھی غیر محسوس طریقے سے یہ مکمل پردہ آنکھیں ننگی کر نے پر پھر اس کے بعد چادر اور آخر میں وہ چادر بھی دوپٹہ پر پہنچ گئی۔کہنا یہ ہے کہ کم از کم اللہ سے محبت کرنے والی اس کے محبوب صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی اطاعت کا دم بھرنے والی دین پر عمل کا جزبہ رکھنے والی اپنے آپ کو گھر سے نکلتے ہوے دوبارہ سے باپردہ حجاب کی طرف لے آئیں۔۔۔چادر کا استعمال منع نہیں مگر لوگ دین داروں کو عم کے لیے سامنے رکھتے ہیں۔رنگ برنگے حجاب کی بجاے سادہ باوقار طرز زندگی اپنائیے۔۔۔اپنے دل اور موبائل فون کا ان باکس صاف شفاف رکھیے۔۔اٹھانے میں پکی چیز میزان عمل میں خسارے کا باعث نہ بنے
حدیث میں ہے۔۔،،کل امتی معافی آلا المجاہرون،،میری امت کے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے سواے ان گناہوں کے جو علی الاسلام کئے جائیں۔۔یہ اس لیے ناقابل معافی ہوں گے کہ ایک تو گناہ اور اس پر بے خوفی کہ کر ہوسکتی ہے۔یہ کھلم کھلا گناہ ایک فحش میسج،ایک بیںحیای والی پوسٹ،وڈیو کو خود دیکھ کے آگے بھیجنا ہے ایک انگلی ہی تو حرکت میں لانا ہوتی ہے۔۔۔اور انگلیوں کے لیے ہی۔۔و تکلمنا ایدیھم۔۔اور ہم سے ان کے ہاتھ باتیں کریں گے فلاں پوسٹ فلاں ڈرامہ فارورڈ کرنے سے پہلے ستر مرتبہ سوچیے کہ معاملہ رب کے ساتھ ہے۔۔جو بہت حیا والا ہے جو بہت بردبار ہے۔
اللھم انی اسئلک الھدی والتقی والعفاف والغنی،،