ڈولی تحریر محمد اظہر حفیظ

ڈولی پراکرت زبان کے اسم ڈول کے آخر میں یہ بطور لاحقہ تانیث لگانے سے بنا۔ اسکا پہلی دفعہ استعمال 1593ء میں آئین اکبری میں ملتا ہے ۔
پنجاب میں ڈولی ایک ایسی جالی دار الماری کو کہا جاتا ہے جسکو اکثر گھر دودھ ،سالن اور برتن رکھنے کیلئے استعمال کرتے ہیں عموماً یہ دو یا تین منزلہ الماری ہوتی ہے ۔
دوسری قسم دلہن کو لیجانے کیلئے استعمال ہوتی ہے جس کو کہار یا اس کے بھائی، چچازاد، ماموں زاد اٹھا کر دلہن کو چھوڑ آتے ہیں۔ اس کا ذکر ہیر وارث شاہ میں بھی آیا ہے۔ ڈولی چڑھدیاں ہیر ماریاں چیکاں۔
یہ ڈولی بانسوں کے ساتھ لگی ہوتی ہے آجکل بھی لوگ اس کو کہیں کہیں استعمال کرتے ہیں ۔
شمالی علاقہ جات میں پر خطر راستوں اور دریاوں کو عبور کرنے کیلئے بھی ڈولی استعمال ہوتی ہے۔ اس سے لمبے راستوں کو آسانی سے طے کرنے میں مدد ملتی ہے۔ چند دن پہلے ڈولی کے ایک حادثہ کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی۔
شمالی علاقہ جات میں سینکڑوں ڈولیاں دریاوں اور کھائیوں کو عبور کرنے کیلئے استعمال ہوتی ہیں۔ شاذو ناظر ہی اس کی رسی ٹوٹنے کے واقعات ہوتے ہیں۔ عموماً یہ محفوظ سفر ہے، ورنہ کون اپنے لخت جگر اس میں سوار ہونے دیتا ہے۔ اس حادثے میں سب مسافر شکر الحمدللہ بحفاظت نیچے اتر آئے۔ لیکن باب اختیار نے فورا بغیر سوچے سمجھے ڈولیوں کے استعمال پر پابندی لگادی ہے۔ پابندی لگانے والے افسران شاید ہی کبھی ڈولی میں بیٹھے ہوں۔ اس سے چند دن پہلے موٹروے پر ایک پک اپ اور مسافر کوچ کے حادثے میں اٹھارہ افراد زندہ جل گئے پر مسافر کوچ یا پک اپ پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔ اس حادثے کا بہت افسوس ہے۔ لیکن پابندی ہر مسئلے کا حل نہیں ہوتی، بلکہ احسن طریقے سے اس چیز کو قابل استعمال بنانا حل ہے۔ اگر حکومت وقت ساری ڈولیوں کی مناسب مرمت اور دیکھ بھال کا انتظام کرتی تو لوگوں کیلئے زیادہ آسانیاں ہو جاتیں۔ سفر کے مختلف ذرائع ہیں ان کو بہتر ضرور کرنا چاہیے پر پابندی اس مسئلے کا حل نہیں حکومت وقت کو شاید اندازہ نہیں کہ کتنے بچے بچیاں سکول جانے سے محروم رہ جائیں گے اور کتنے لوگوں کو روزگار چھوڑنے پڑ جائیں گے ۔ ان ڈولیوں کو حکومت اپنے خرچے پر بہتر ضرور بنائے پر پابندی والے فیصلے پر ہمدردانہ غور کرے۔ جتنے پیسے اس سلسلے کی بھاگ دوڑ اور میڈیا کوریج اور تقریبات پر لگے ہیں اتنے پیسے اگر ڈولیوں پر لگادئیے جائیں تو کافی ڈولیوں کی حالت بہترین ہوجائے گی۔ کچھ دوست جنہوں نے تینوں طرح کی ڈولیوں کی شکل تک نہیں دیکھی انھوں نے سوشل میڈیا سر پر اٹھایا ہوا ہے۔ شکر الحمدللہ سب لوگ خیریت سے واپس آگئے۔
کچھ لوگ جن کی زندگی کا سب سے محفوظ فیصلہ دو کلو دودھ کو ڈبل شاپر میں لیکر آنا ہے وہ بھی ماشاءاللہ اس پر تبصرے فرمارہے تھے۔ محترم دوستو ایمرجنسی کے مقام پر ریسکیو کرنا وہ کوئی ادارہ کرے یا عوام کرے وہ ہی جانتا ہے جو ریسکیو کرتا ہے۔ ٹیلیویژن کی سکرین پر دیکھ کر ترکیبیں فائنل کرنا، نعرے مارنے سے نہ تو مسئلے حل ہوتے ہیں اور نہ ہی نتائج تبدیل ہوتے ہیں ۔ یقین نہ آئے تو 1500 فٹ پر ہیلی کاپٹر سے لٹک کر یا پھر اتنی اونچائی پر رسی سے لٹک کر ضرور تجربہ کریں۔ شکریہ
انڈیا چاند پر پہنچ گیا انکو اسی کی مبارک باد۔ اس کے خلاف سوشل میڈیا ٹرولنگ کرنے سے وہ چاند سے نیچے نہیں آجائیں گے۔ اگر ہم سوشل میڈیا سے کچھ وقت بچا لیں تو شاید ہم بھی کہیں پہنچ جائیں ۔ وہ چاند نہ سہی زمین پر ہی سہی ابھی تو ہم کہیں بھی نہیں ہیں۔ اربوں کی آباد دنیا میں ہم اکیلے کھڑے ہیں۔ وہ ٹیسلا گاڑیاں بنا رہے ہیں اور ہم الیکٹرک سکوٹر بنا کو ایوارڈ تقسیم کیے جارہے ہیں – ہیں تو سب ہی کامیابیاں پر اپنے معیار بہتر کیجئے ۔ انڈیا کے مقابلے میں زیادہ ایٹمی دھماکے کرکے ہم فرسٹ آگئے تھے اب کوشش کرکے چاند اور سورج پر جانے کا ریکارڈ بھی بنا ڈالیں ۔ میرا ایک مشورہ ہے سورج پر رات کو جائیے گا صبح گرمی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ جانے کا طریقہ یقیننا یوٹیوب پر موجود ہوگا۔ دیکھئے اور عمل کیجئے 1992 میں سارک ممالک کے طلباء آرکیٹکٹس کے درمیان عمارات بنانے کا مقابلہ ہوا۔ جو ایک بنگلہ دیشی نوجوان نے جیت لیا۔ سب طلباء نے مختلف چیزیں بنا رکھیں تھی کسی نے بلندوبالا عمارت ، کسی نے گھر پر بنگلہ دیشی لڑکے نے فائبر گلاس کا ایک کم قیمت گھر ڈیزائن کیا تھا جس کے نیچے سے پانی گزرنے کا انتظام تھا کہ وہاں سارا سال سیلابی صورتحال رہتی ہے۔ اس لیے یہ گھر سیلاب سے محفوظ رہ سکے۔ اپنی ملکی ضرویات کے مطابق چیزیں بنائیے ناکہ مقابلے کی دوڑ میں پاگل ہوجائیں۔ ڈولیاں چلتی رہنے دیں کیونکہ اتنے پل اور سڑکیں بنانے کے ہم متحمل نہیں ہیں ۔ کام وہ کریں جو ممکن ہوں ، خواب دیکھنے والے خواب دیکھ کر یہ ملک بنا کر چلے گئے ۔ اب اس کو اگے بڑھانا ہمارا فرض ہے۔ ڈولی کے مالک کو گرفتار کرلیا گیا ہے جو دس بیس روپے لیکر عوام کو وہ سہولت دے رہا تھا جو حکومت نہیں دے سکی۔ ڈولی یقیننا محفوظ تھی ورنہ نیچے گر جاتی۔ اب پولیس اس غریب سے اس کی عمر بھر کی جمع پونجی رشوت میں لے لے گی اور اس کی سات نسلیں ڈولی چلانے سے توبہ کرلیں گی۔ حکومت فوری طور پر متبادل ذرائع آمدورفت کا انتظام کرے یا اس بندے کو رہا کرے تاکہ وہ ڈولی ٹھیک کروا کر دوبارہ عوام کو سہولت دے سکے۔ ڈولی کو بند کرنا مسئلے کا حل نہیں ۔ حکومتیں طاقت کیلئے نہیں خدمت کیلئے ہوتی ہیں۔
سلامت رہیں، خوش رہیں۔آمین