الله پاک کے لاڈلے


یه واقعه میرے ایک عزیز دوست ندیم
صاحب نے بھیجا ھے

یه ان دنوں کی بات ھے جب میں جوہر شادی ہال (J complex) کے قریب ایک فلیٹ میِں رہتا تھا. اس پوش کالونی کے ساتھ ساتھ جاتی سڑک کے کنارے کنارے ہوٹل، جوس کارنر، فروٹ کارنر بھی چلتے چلے جاتے تھے آگے ایک چوک تھا رمضان کے دن تھے شام ھونے کوتھی افطاری کے لئے فروٹ خریدنے کے لئے ادھر آیا تھا.چوک کے دائیں طرف نکڑ پر اک ریڑھی کھڑی نظر آئی تھی، اسکے تروتازہ پھلوں نے مجھے اپنی طرف متوجه کیا ایسا لگا جیسے کوئی نادیدہ قوت مجھے اس طرف کھینچ رھی ھے میں آس پاس کی تمام ریڑھیوں کو نظر انداز کرتا ھوا ریڑھی کے پاس جا پہنچا. اک نگاه پھلوں پہ ڈالی ادھر اُدھر دیکھا کوئی بیچنے والا نه تھا. افطاری کے وقت کے قریب ھونے روزے کی وجه نقاہت و سستی کی کیفیت طاری تھی ، اسی اثنا میں میں ایک گیارہ بارہ سال کا بچہ پاس سے گزرا، مجھے دیکھ کر کہنے لگا، فروٹ لینا ھے؟
میں نے ھاں میں سر ھلایا،
وہ بولا “تو لے لو. چاچا ریڑھی پر نہیں آتا،
یہ دیکھو بورڈ لگا ھوا ھے “.
میں نے گھوم کر دیکھا، واقعی وھاں ایک چھوٹا سا بورڈ ریڑھی کی چھت سے لٹک رہا تھا، اس پر موٹے مارکر سے لکھا ہوا تھا،
”گھر میں کوئی نہیں ھے، میری بوڑھی ماں فالج زدہ ہے، مجھے تھوڑی تھوڑی دیر بعد انهیں کھانا اور اتنی ہی مرتبه حاجت کرانی پڑتی ہے، اگر آپ کو جلدی ھے تو اپنی مرضی سے فروٹ تول لیں اور پیسے کونے پر کر ریگزین کےگتے کے نیچے رکھ دیجیے . ساتھ ھی ریٹ بھی لکھے ھوۓ هیں
اور اگر آپ کے پاس پیسے نه ھوں، تو میری طرف سے لے لینا, اجازت ہے!
. وللہ خیرالرازقین!

بچہ جا چکا تھا، میں حیران کھڑا کبھی اس ریڑھی اور کبھی اس بورڈ کو تک رہا تھا. ادھر اُدھر دیکھا، پاس پڑے ترازو میں دو کلو سیب تولے، درجن کیلے لیے، شاپر میں ڈالے، پرائس لسٹ سے قیمت دیکھی، پیسے نکال کر ریڑھی کے پھٹے کے گتے والے کونے کو اٹھایا، وہاں سو پچاس دس دس کے نوٹ پڑے تھی، میں نے پیسے اسی میں رکھ کر اسے ڈھک دیا، ادھر اُدھر دیکھا کہ شاید کوئی میری طرف متوجہ ہو، اور شاپر اٹھا کر واپس فلیٹ پر آگیا. واپس پہنچتے ہی بھائی سے سارا ماجرا کہہ سنایا، بھائی کہنے لگے وہ ریڑھی واپس لینے تو آتا ہوگا، میں نے کہا ہاں آتا تو ہوگا،

افطار کے بعد میں اور بھائی ادھر گئے. دیکھا اک باریش آدمی ، داڑھی آدھی کالی آدھی سفید ، ہلکے کریم کلر کرتے شلوار میں ریڑھی کو دھکا لگا کر بس جانے ہی والا تھا وه ھمیں دیکھکر مسکرایا اور بولا” صاحب ! پھل تو ختم ہوگیا ہے، باقی پیسے بچے ہیں، وہ چاہیں تو لے لو”. یہ اس کی ظرافت تھی یا شرافت، پھر بڑے التفات سے مسکرانے لگا اور
اس کے دیکھنے کا انداز کچھ ایسا تھا که بھائی مجھے دیکھیں میں بھائی کو اور کبھی ہم دونوں مل کر اس درویش کو.
نام پوچھا تو بولا خادم حسین ، اس بورڈ کی طرف اشارہ کیا تو، وہ مسکرانے لگا. کھنے لگا “آپ میرے ساتھ گپ شپ کے موڈ میں ہیں”, پھر ہنسا، پوچھا “چائے پیئں گے؟ لیکن میرے پاس وقت کم ہے”.
پھر ہم سامنے ڈھابے پہ بیٹھے تھے.

چائے آئی، کہنے لگا “پچھلے تین سال سے اماں بستر پر ھے، کچھ نفسیاتی سی بھی ہوگئی ہے، اور اب تو فالج بھی ہوگیا ہے، میرا کوئی بال بچہ نہیں، بیوی مر گئی ہے، صرف میں ھوں اور میری اماں. اماں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نهیں اس لئے مجھے ھروقت اماں کا خیال رکھنا پڑتا ھے”

اک دن میں نے اماں کے پاؤں دباتے ھوۓ بڑی نرمی لجالت سے کہا، “اماں! تیری تیمار داری کو تو بڑا جی کرتا ہے. پر جیب میں کچھ نھیں تو مجھے کمرے سے ہلنے نہیں دیتی، کہتی ہے تو جاتا ہے تو جی گھبراتا ہے، تو ہی بتا میں کیا کروں؟ ”
اب کیا غیب سے کھانا اترے گا ؟ نہ میں بنی اسرائیل کا جنا ہوں نہ تو موسیٰ کی ماں ہے، کیا کروں! یه سن کر اماں نے ہانپتے کانپتے اٹھنے کی کوشش کی, میں نے تکیہ اونچا کر کے اسکو بٹھایا ,ٹیک لگوائی، انھوں نے جھریوں والا چھره اٹھایا اپنے کمزور ہاتھوں کا پیالا بنا یا، اور نه جانے رب العالمین سے کیا بات کی، پهر بولی ” تو ریڑھی وہی چھوڑ آیا کر، تیرا رزق تجھے اسی کمرے میں بیٹھ کر ملے گا”
، میں نے کہا ” اماں کیا بات کرتی ھے, وہاں چھوڑ آؤں گا تو کوئی چور اچکا سب کچھ لے جاۓ گا، آجکل کون لحاظ کرتا ھے؟ بنا مالک کے کون خریدار آئے گا؟”

کہنے لگی “تو فجر کو ریڑھی پھلوں سے بھر کرچھوڑ کر آجا بس، زیادہ بک بک نیئں کر، شام کو خالی لے آیا کر، اگر تیرا روپیہ گیا تو یه خالدہ ثریا الله سے پائی پائی وصول دیگی”.

“ڈھائی سال ہوگئے ہیں بھائی!صبح ریڑھی لگا جاتا ہوں. شام کو لے جاتا ہوں، لوگ پیسے رکھ جاتے پھل لے جاتے، دھیلا اوپر نیچے نہیں ہوتا، بلکہ کچھ تو زیادہ رکھ جاتے، اکثر تخمینہ نفع لاگت سے تین چار سو اوپر ہی جا نکلتاھے، کبھی کوئی اماں کے لیے پھول رکھ جاتا ہے، کبھی کوئی اور چیز! پرسوں ایک پڑھی لکھی بچی پلاؤ بنا کر رکھ گئی، نوٹ لکھکر رکھ گئی “اماں کے لیے”،. اک ڈاکٹر کا گزر ہوا، وہ اپنا کارڈ چھوڑ گیا. پشت پہ لکھ گیا. “انکل! اماں کی طبیعت نہ سنبھلے تو مجھے فون کرنا، میں گھر سے پک کر لوں گا” کسی حاجی صاحب کا گزر ہوا تو عجوہ کجھور کا پیکٹ چھوڑ گیا، کوئی جوڑا شاپنگ کرکے گزرا تو فروٹ لیتے ہوئے اماں کے لیے سوٹ رکھ گیا، روزانہ ایسا کچھ نہ کچھ میرے رزق کے ساتھ موجود ہوتا ہے، نہ اماں ہلنے دیتی ہے نہ اللہ رکنے دیتا ہے. اماں تو کہتی تیرا پھل بیچنے کے لئے، اللہ خود نیچے اتر آتا ہے، اور بیچ باچ جاتا ہے، بھائی! وه سوھنا رب اک تو رازق ھے، اوپر سے ریٹیلر بھی ھے، اللہ اللہ!
چائے ختم ہوئی تو کہنے لگا اجازت اب، اماں خفا ہوگی! بھنیچ کے گلے ملے . میں تو کچھ اندر سے تربتر ہونے لگا. بمشکل ضبط کیا، وه ڈھیروں دعائیں دیتا ہوا ریڑھی کھینچ کر چلتا بنا.

میرا بہت جی تھا کہ میں اس چہیتے ”خادم” کی ماں کو جا ملوں اور اس سے کچھ دعا کرواؤں، پر میری ہمت نهیں پڑی …

آخر میں مجھے اپنے بچوں سے کھنا ھے اگر آپ فارغ ھوں اور اپنے والدین کو کام کرتے دیکھیں تو فورأ اٹھکر انکی مدد کریں اور انهیں کھیں “امی جان!
ابا جان! “لائیے میں آپکی مدد کرتا / کرتی ھوں”
پهر دیکهیں دنیا و آخرت کی کامیابیاں کیسے تمھارے قدم چومتی ھیں! انشاءالله!

کیٹاگری میں : نثر