شامل ِ شور ِ جہاں راشد جاوید احمد

وہ چاروں اس جگہ جمع تھے۔ ان میں سے جو اونچے لمبے سٹول پر بیٹھا راہ گیروں کو گھور رہا تھا، دوکان کا مالک تھا اور باقی اسکے یار دوست۔ ان میں سے دو آپس میں بات چیت کر رہے تھے۔ چوتھا آرام کرسی میں دراز بڑی بڑی نیم خوابیدہ آنکھوں سے خلا میں گھور رہا تھا۔ اسکی انگلیوں میں دبی سگریٹ کا دھواں دائروں کی شکل میں اٹھ رہا تھا۔۔ سامنے والی سڑک پر اچانک ایک کار کے بریک چیخ اٹھے۔ کار سے ٹکرانے والا سکوٹر سوار بال بال بچ گیا تھا۔ لیکن اس ٹکر نے ان چاروں کی جگہ تبدیل کر دی۔ اونچے سٹول والا اب دوکان کے باہر کھڑی اپنی موٹر سایئکل پر آلتی پالتی مارے بیٹھا راہگیروں کو گھور رہا تھا۔ بات چیت کرنے والے اب اس بات پر بحث کر رہے تھے کہ قصور کس کا تھا۔ لیکن وہ کسی نتیجے تک نہیں پہنچ پا رہے تھے۔ آرام کرسی والا آسمان کی طرف دیکھنے کی بجائے

راشد جاوید احمد

پنی قمیض کے دامن سے عینک کے موٹے شیشے صاف کر رہا تھا۔
وہ چاروں تقریبا روز اسی وقت وہاں جمع ہوتے تھے۔یوں لگتا تھا کہ انہوں نے کام کاج سے فارغ ہونے کے بعد وہاں آنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ گول چکر سے بایئں طرف جانے والوں کو گھورنا اور زمانے بھر کی گپیں ہانکنا ان کا روز کا معمول تھا ۔ وہ اسکے اتنے عادی ہو چکے تھے کہ چھٹی کا دن گھر پر گزارنا انکے لئے مشکل ہو گیا تھا۔
اکثر ایسا بھی ہوتا کہ راہگیروں کو گھورنے والا اپنی دوکان کے کاونئٹر پر کسی گاہک کو بھگتا کر نیچے اترتا ، سٹول پر بیٹھتا اور کوئی فلمی دھن گنگنانے لگتا۔ سڑک پر سے گزرنے والے چہرے دیکھ کر یہ دھبن اپنا ردھم بدلتی رہتی۔ کبھی یہ دھن اس طرح رک جاتی جیسے خراب کیسٹ کی آواز یا پھر کوئی خوبصورت چہرہ دیکھ کر تیز ہو جاتی۔ بعض اوقات تو دھن کے ساتھ انگلیوں کی چٹک بھی شامل ہو جاتی۔ بات چیت کرنے والے اپنے دفتروں، گھروں اور ملکی سیاست پر گفتگوکرتے ایک لمحے کے لئے رک جاتےاور اچھا چہرہ دیکھ کر اسکے خالق کی تعریف کرنے لگتے۔ خلا میں گھورنے والا ان کی باتیں سن کر ہاں میں ہاں اور نہیں میں نہیں ملاتا۔ گزرنے والوں پر نظر وہ بھی رکھتا تھا لیکن اوپر سے “بھارا گھورا” ہو رہتا تھا۔ پھر ان میں سے ایک کہتا
” یار، چائے کے بارے میں کیا خیال ہے ۔۔۔ ؟”
ویسے تو یہ سوالیہ فقرہ ہوتا لیکن کچھ دیر کے بعد چائے کا سیٹ آ پہنچتا۔ چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے وہ سڑک کے کنارے ڈرائی کلین کی دوکان پر بھی نظر رکھتے جہاں موسم بدلنے کی وجہ سے خاصی رونق ہوتی۔ چوک سے مڑنے والی کاریں اور جنرل سٹور سے نکلنے والے خریدار بھی انکی نظروں سے اوجھل نہیں تھے۔ کبھی ایسا ہوتا کہ کوئی کار ان کے پاس سے سلو موشن میں گزرتی تو اونچے سٹول والا ایک دم بول اٹھتا کہ ” یہ تو وہی تھی۔۔۔”اور پھر اپنی موٹر سایئکل پر ہوا ہو جاتا۔ گفتگو کرنے والے سگریٹ سلگا لیتے اور ان کی نظریں کار کا تعاقب کرنے والی موٹر سایئکل کا پیچھا کرتیں۔ حتی کہ دونوں ٹریفک کے اژدھام میں گم ہو جاتیں۔خلا میں گھورنے والا، ہونٹوں میں کچھ بڑ بڑاتا اپنے آپ سے باتیں کرتا رہتا۔ تھوڑی دیر کے بعد موٹر سایئکل والا واپس آتا اور بڑی مایوسی سے اعلان کرتا ” یار یہ وہ نہیں تھی ۔۔۔ ”
اب سہ پہر کا کافی حصہ گزر چکا ہوتا۔ ڈرائی کلین کی دوکان پر رونق کچھ اور بڑھ جاتی۔ وہ
جنرل سٹور سے متصل چیٹر باکس نامی کافی بار پر آنے والے جوڑوں کے متعلق اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے۔ان کے آپسی تعلق ان کی مالی حالت، ان کے کاروبار اور رہن سہن کے بارے میں اندازے لگاتے رہتے۔ وہ کافی دیر تک اسی کام میں مشغول رہتے ۔ حتی کہ کسی کو یاد آتا
” یار میری بیوی نے کہا تھا کہ آج چھوٹے کی دوائی ضرور لے آنا ۔۔۔ ”
” ہاں تو لے آو، سامنے ہی تو میڈیکل سٹور ہے۔۔۔۔”
موٹر سایئکل والا کہتا
” یار مجھے تو آج بچوں کے ساتھ ایک جگہ جانا تھا۔۔۔” ایک کو یاد آتا، ” اچھا پھر سہی ۔۔۔” اور یہ پھر سہی پھر کبھی نہ آتی۔
خلا میں گھورنے والا سگریٹ کا آخری کش لے کر ٹوٹا بیچ سڑک کے اچھال دیتا۔ کرسی سے اٹھ کر دوکان کے برآمدے کا ایک چکر لگاتا اور پھر ” یار کیا زندگی ہے ہماری ۔۔۔” کہہ کرکرسی پر بیٹھ جاتا۔
” تم نے تو ویسے بھی زندگی گنوا دی ہے ۔ نائن ٹو فایئو جاب کرتے ہو اور پھر نہ جانے کن سٹدی سرکلز میں کیا سکھاتے رہتے ہو۔۔۔فیکٹری مزدوروں میں سر کھپاتے ہو۔۔۔ وہ تمہارا لیفٹ، تمہارا رائٹ اور تمہارا انقلاب۔۔۔”
اس بات پر گرما گرم بحث چھڑ جاتی، جو آٹے دال کے بھاو سے ملکی سیاست، مافیاز کی آپسی لڑائی اور دہشت گردی سے ہوتی ہوئی عالمی صورت حال تک پہنچ جاتی۔ یوں لگتا تھا کہ وہ سب اسی انتظار میں رہتے کہ عینک والا یہ فقرہ پھینکے اور وہ اپنی ضرورتوں، محرومیوں اور نہ پوری ہونے والی خواہشوں کے المئے شروع کریں۔
اب شام گہری ہو جاتی اور پانچواں بھی ان میں آ شامل ہو تا۔
” ہاں بھئی کیا ہو رہا ہے ؟ ” یہ اس کا روز کا سوال تھا۔
” او یار۔۔ تم سارا دن کہاں ہوتے ہو ؟ ” یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ روزانہ اسی وقت وہاں آتا ہے، اس کے سوال کا یہی جواب دیا جاتا۔ پاپ میوزک کی دھن پرہاتھ پیر ہلاتا ، موٹر سایئکل کے شیشے میں بال سنوارتا وہ برآمدے میں تھوڑی دیر کے لئے ٹہلتا پھر سیٹی بجاتے ہوئے میڈیکل سٹور پر، سیلز گرل سے ” سٹریپ سلز ” لینے چلا جاتا۔ خدا جانے اس کا گلا ہمیشہ خراب کیوں رہتا۔
” ہاں تو پھر کیا طے ہوا۔۔؟ ” گولی چوستے ہوئے وہ واپس آ کر پوچھتا۔
” یار یہ بات تو سب جانتے ہیں ناں کہ ہم سب روز یہاں وقت ضایع کرتے ہیں ۔”
” اور ہمارے پاس پے کیا اس کے علاوہ ؟ ” کوئی ایک بول اٹھتا
دوکان پر کسی گاہک کے آ جانے سے اس بحث میں ایک چھوٹا سا وقفہ آتا پھر بہت دیر تک اسی مسئلے پر بحث ہوتی رہتی۔ تجویزیں پیش کی جاتیں، دلیلیں رد کی جاتیں، خلا میں گھورنے والا اپنی جیبیں ٹٹولتا، موٹر سایئکل کی چابی نکال کر انگلی میں پھنساتا اور کہتا
” ہوں ۔۔۔ تو پھر یہ طے رہا کہ کل سے ہم یہاں نہیں آیا کریں گے۔ اب ہم صرف چھٹی کے دن ہی یہاں اکٹھے ہوا کریں گے۔ آخر ہمارے گھر والوں کو بھی ہماری ضرورت ہے۔۔۔”
یہ بات سن کر وہ سب سر نیہؤڑا لیتے۔ بچوں کا شور، ساس بہو کے جھگڑے، عورتوں کی فرمائشیں، مالی حالات کی تنگی۔ سب ان کے سامنےفلم کی طرح گھوم جاتا۔ وہ ایک ایک کر کے اپنے گھروں کو روانہ ہو جاتے۔
گرمیاں ختم ہو چکی ہیں۔ برسات کی پہلی بارش بھی ہو چکی ہے۔ وہ چاروں اسی جگہ جمع ہیں۔ ایک اونچے سٹول پر بیٹھا راہ گیروں کو تکے جا رہا ہے۔ دوسرا اور تیسرا اپنے اپنے دفتر کی سیاست میں غرق۔، چوتھا ، پانچویں کے انتظار مین بیٹھا خلا میں گھور رہا ہے۔
اور
آج چھٹی کا دن نہیں