دارالحکومت تحریر محمد اظہر حفیظ

بڑوں سے سنا ہے کہ کراچی پہلے پاکستان کا دارالحکومت ہوتا تھا۔ پھر بڑی محنت اور لگن سے اس کو جرائم کا گڑھ بنایا گیا ۔ لاقانونیت اعلی درجے پر قائم ہونے کے بیج بوئے گئے اور سارے ملک کی اقوام کو کراچی میں جمع کیا گیا اور کراچی اس کے حوالے کردیا گیا۔
پھر ہم نے ترقی کی منازل طے کی اور کراچی جرائم کی دنیا میں نمبر ون بننے کے چکر میں پڑگیا۔ قتل، راہزنی ، ڈکیتی، اغوا، بھتہ خوری، موبائل اور گاڑیاں چھیننے کی اتنی وارداتیں شروع ہوگئیں کہ ان کا شمار مشکل تھا روکنا تو بہت دور کی بات تھی۔ انصاف بھی کراچی میں بہت ارزاں بکتا تھا جو مرضی جرم کرو پیسے دو یا سیاسی وابستگی شو کرواو اور نیکو کار کا سرٹیفیکیٹ لے لو۔ نظام تعکیم بھی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا تھا۔ کچھ بھی تو ٹھیک نہیں تھا۔ فیلڈ مارشل صاحب نے اسلام آباد فتح کیا اور اس کو دارالحکومت بنانے کا فیصلہ کیا ۔ اور اس کو کراچی کی اصل سے بہتر کاپی بنانے کے وعدے کئے۔ ہم نے تاریخ کے ایک طالب علم کی حثیت سے کسی دانشور سے پوچھا جنرل صاحب فیلڈ مارشل کیسے بنے کہنے لگے جیسے کہ راجہ داہر کا ذکر آپ نے پڑھا ہوگا، اسی طرح راجوں سے جنرل ایوب خان نے اسلام آباد کو فتح کیا اور فیلڈ مارشل کہلائے۔ مجھے بڑا تجسس ہوا اور ایک پنڈی وال راجے سے پوچھا راجہجی سنا ہے آپکے بڑے بہت بڑے جنگجو تھے ۔ کہنے لگے تساں کس آکھیا۔ بتایا کہ تاریخ دان کہتے ہیں فیلڈ،مارشل ایوب خان نے اسلام آباد راجوں سے فتح کیا ہے ۔ یارا مذاق نہ کر ساڈے وڈے کھوتیاں چارنے سن تے ٹانگے چلانے سن پر اس ایوب خان ساڈے نال فراڈ کیتا تے زمیناں نا لارا لائی کے ساڈے وڈیاں کولوں اسلام آباد لے لیتا جس طرح آج کل ہاوسنگ سوسائٹیاں بننیاں نے۔ مجھے بات سمحھ آگئی۔ مجھے اسلام آباد میں رہتے 42 سال ہوگئے اور میں چشم دید گواہ ہوں کہ کیسےاسکو بڑی ترتیب سے کراچی بنایا گیا پہلے اونچی اونچی بلڈنگز بنائی گئیں پھر انٹرنیشنل ائرپورٹ بنایا گیا بڑی بڑی سوسائٹیاں بنائی گئیں اور ملک بھر سے چور اچکوں کو لا کر یہاں آباد کیا گیا ۔ قتل، چوری، ڈکیتی، موبائل چھیننا اب معمول بن چکا ہے نہ ایف آئی آر درج ہوتی ہے اور نہ کوئی سننے والا ہے ساری پولیس بڑے مجرموں کی حفاظت اور باحفاظت عدالتوں میں پیشیوں پر مصروف ہے اور اسلام آباد لاوارث۔ کبھی کسی دوست کی گاڑی چھن جاتی ہے اور کبھی چوری ہوجاتی ہے، بچیوں اور بچوں سے موبائل چھیننا ، بیگ چھیننا معمول بن چکا ہے ، بڑوں سے روازنہ گن پوائنٹ پر پیسے اور موبائل چھین لئے جاتے ہیں۔ بڑی شاہراوں کے ساتھ منسلک سیکڑ چوروں اور ڈاکوں کی جنت بن چکے ہیں۔ ایک گاؤں کی پولیس اور اسلام آباد کی پولیس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ لائسنس والا اسلحہ لیکر چلنے پر ممانعت ہے۔ بغیر لائسنس کے اسلحہ آپ جہاں مرضی لیکر چلے جائیں، میری رائے میں دفعہ 144 پولیس اور چوروں کی باہمی رضا مندی کا قانون ہے۔ مجھے امید ہے جلد ہی ہم اسلام آباد والے کراچی والوں کی طرح چوروں ڈاکوؤں کا علاج بل غذا شروع کردیں گے۔۔ محترم وزیر اعظم اور سیکورٹی اداروں کے سربراہان سے گذاراش ہے کہ پولیس کو تھوڑا فارغ کریں تاکہ وہ عوام کے مسائل کی طرف بھی توجہ دے سکیں۔ ورنہ ہر بات کا حل تو رینجرز ہی ہیں امید ہے جلد ہی اسلام آباد کو بھی انکے مزید حوالے کردیا جائے گا ۔ اور بتایا جائے گا کہ پولیس کی اور بہت مصروفیات ہیں۔ میرے گھر کے افراد کے ساتھ تین دفعہ موبائل، بیگ اور پیسے چھننے کی وارداتیں ہوچکی ہیں ، پر تھانے جاکر کئی دن ضائع کرکے درخواست جمع کروانے سے بہتر ہے کراچی والوں کی طرح صبر کرلیا جائے ۔ کراچی کی کروڑ ہا آبادی میں ہر فرد کے دو سے تین دفعہ چوری اور ڈکیتی کی واردات کا شکار ہونے کے واقعات موجود ہیں ماسوائے الطاف بھائی اور زرداری بھائی کے۔ کیونکہ سرپرست ہمیشہ محفوظ ہاتھوں میں رہتے ہیں۔ اسی طرح اسلام آباد کےبڑے بھی محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔
مہربانی کیجئے کوئی نیا دارالحکومت ڈھونڈئیے ہماری حثیت ہی نہیں ان سب کو برداشت کرنے کی۔
ساری زندگی بچوں کو پُراعتماد بنانے میں گزار دی موبائل اور پرس تو نیا لے دیں گے پر نیا اعتماد کہاں سے لے کر دیں۔ مہربانی فرماکر نیا پاکستان بعد میں بنا لیں پہلے نیا دارالحکومت بنا لیں۔ محترم آئی جی صاحب پڑے چور اچکے آپ سے گرفتار نہیں ہوں گے چھوٹے چھوٹے ڈاکو چور پکڑ کر ریہرسل ہی کرلیں۔ شاید کراچی میرا مطلب ہے اسلام آباد کا سکون واپس آجائے۔ یہ پولیس کی جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی ہی ہے جو انکے گھروں اور گاڑیوں کی شکل میں نظر آتی ہے، ورنہ ایس ایچ او لیول کے اور اس سے ادنی کسی بھی سرکاری ملازم کے پاس یہ سہولیات دکھا دیں ۔ میں مشکور رہوں گا۔ شکریہ