کورنگ نالہ۔ مسائل کا ہالہ

تحریر و فوٹو گرافی۔ سبطین ضیا رضوی
کورال ٹاؤں اسلام آباد ہائی وے کے اوپر بڑی قدیم گاؤں ہے۔یہ ایک یونین کونسل بھی ہے اور اسلام آباد پولیس کا مشہور تھانہ بھی۔موجودہ کورال کے ایک طرف مشہور ہاؤسنگ سوسائٹی غوری ٹاؤن جبکہ دوسری طرف گلبرگ گرین واقع ہے۔باقی آبادیوں میں کالونیوں سوسائٹیوں میں کورنگ ویو سوسائٹی ،ڈھوک حیدری، شریف آباد ،اشرف ٹاون اور بھٹی ٹاؤن شامل ہیں جن میں لاکھوں نفوس بستے ہیں۔ کورنگ ریور المعروف کورنگ نالا جو کہ راول جھیل کے سپل وے گیٹ سے شروع ہوتا ہے۔اور اپنے مخصوص راستے سے ہوتا ہوا براستہ غوری ٹاؤن ڈھوک حیدری کورنگ ویو سوسائٹی سے مڑتا ہوا گلبرگ گرین سے گزر کرہائی وے کو عبور کرتے ہوۓ پی ڈبلیو ڈی اور بحریہ سے گزر کر سواں نالہ میں گرتا ہے۔ عمومی بارشوں کا پانی اور مختلف سیوریج نالوں کے علاوہ موسم برسات میں جب راول جھیل کے پانی کی سطح جڑواں شہروں کے لیئے خطرے کی گھنٹی بجاتی ہے تو یہ واحد آبی گزرگاہ ہے جو ڈیم کے اضافی پانی کو سواں نالے کے زریعے دریا تک پہنچانے کا ذریعہ بنتا ہے۔
گذشتہ چند سالوں سے اس نالے پر مختلف قبضہ گروہ نظریں جماۓ ہوۓ ہیں۔ جہاں مناسب موقع ملتا ہے نالے کےدونوں اطراف غیر قانونی تعمیرات پلاٹنگ اور اراضی پر قبضہ کی وجہ سے اس قدرتی آبی گزرگا کی چوڑائی نہ صرف سکڑ رہی ہے بلکہ پانی کے بہاؤ کی روانی بھی متاثر ہو رہی ہے۔پچھلے چند سالوں سےمنظم اور غیر منظم انداز میں پورے ایریا کا کوڑا کرکٹ اسی نالے کی مختلف جگہوں میں پھینکا جا رہا ہے۔غیر منظم طریقے میں جو جہاں بھی جس جگہ جس کو موقع ملتا ہے وہاں کوڑا کرکٹ کےبھرے لوڈر رکشے اور ٹرالیاں اس میں پھینکی جاتی ہیں۔
منظم طریقہ واردات یہ ہے کہ کسی شبیر نامی افغانی نے شریف آباد پل کے قریب جہاں نالہ بل کھا کر گلبرگ گرین کو مڑتا ہے وہاں کنارے پر چھوٹا سا گھر بنایا ہے۔ اور اب پورے علاقے سے جتنے بھی کوڑا کرکٹ اٹھانے والے پرائیویٹ ٹھیکیدار ہیں ان سے ڈمپنگ کا ٹھیکہ کر رہا ہے۔ ایک طرف ان سے رقوم اینٹھتا ہے۔ اور اپنے گھر کے باہر نالے کے کونے میں روزانہ منوں اور ٹنوں کے حساب سے کوڑا اور کچراپھینکوا رہا ہے۔ روزانہ کی بنیاد میں آنے والایہ کچرا زیادہ تو نالے میں گرتا ہے۔کچھ بہہ جاتا ہے کچھ موڑ میں چٹانوں کے ساتھ اٹک کر پھنس جاتا ہے۔
جو کوڑا اور کچرا جس میں گھریلو مارکیٹ اور ہسپتالوں کا کچرا ہوتا ہے اور ہر قسم کے زہریلے اجزا شامل ہو تے ہیں اس کو آگ لگا دی جاتی ہے۔ اس زہریلے دھوئیں کی وجہ سے کورنگ ویو اور شریف آباد کے مکینوں کو سانس تک لینا دوبھر ہو جاتا ہے۔ اس دھوئیں کی وجہ سے بچوں اور بزرگوں کے لیئے پھیپھڑوں اور سانس کی بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پوری رات جلنے والے کچرے کو صبح ہموار کر دیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے نالے کا پاٹ تنگ اور اس کا پلاٹ روزانہ کی بنیاد پر پھیل رہا ہے۔ گویا آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام۔ ہر دو اطراف سے فائدہ ہی فائدہ۔ سارے مسائل تو علاقہ مکینوں کو ہیں۔ ایک طرف تعفن اور بدبو اور زہریلا دھوؤاں اور اوپر سے برسات کرے موسم میں برساتی نالے میں سیلاب کے امکانات جو روز بروز قوی سے قوی تر ہو رہے ہیں۔
اس مضمون کی معرفت ارباب اقتدار اور خصوصاً سی ڈی اے کے ڈائریکٹر ماحولیات۔ سیکرٹری ماحولیات۔ نیشنل ڈسساسٹرمینیجمنٹ اٹھارٹیNDMA اور متعلقہ پولیس حکام اور ایس ایچ او کورال اس صورتحال کا نوٹس لیں۔ ورنہ کل کو کراچی کیطرح اسلام آباد کی یہ آبادیاں بھی سیلاب کا شکار ہوں گی۔ اور پھر لکیر پیٹنے کے علاوہ کچھ نہ ہو گا۔
علاقہ کے معززین انفرادی اور اجتماعی طور پر اس مافیہ کے فرنٹ میں شبیر افغانی سے مل چکے ہیں ۔ جس پر وہ وعدہ تو کرتا ہے مگر عملی طور پر اپنا کام جاری رکھتا ہے۔ موقع کی تصاویر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صورتحال کتنی سنگین ہے۔متعلقہ حکام سے گزارش ہے کہ اس مسئلہ کی سنگینی کو ندنظر رکھتے ہوۓ قانون نافذ کرنے والے داروں کو متحرک کریں اور اس سلسلہ کو روکیں ورنہ پانی نالے اور پل کے بعد ہمارے سر سے بھی گذر جاۓ گا۔