ترجیحات پاکستان ڈاکٹر ساجد خاکوانی-2/2

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ترجیحات پاکستان
(14اگست،اسلامی جمہوریہ پاکستان کے یوم آزادی کے حوالے سے خصوصی تحریر)
ڈاکٹر ساجد خاکوانی
drsajidkhakwani@gmail.com
(گزشتہ سے پیوستی)
4:۔چوتھی ترجیح:تعلیم
کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے تعلیم کی اہمیت اظہر من الشمس ہے۔ تعلیم معرفت نفس کا وسیلہ ہو تی ہے کہ انسان اپنے آقا کی شناخت کر سکے،اپنے آپ کو پہچان سکے،کائنات میں اور دیگر مخلو قات میں اپنی حیثیت کاادراک حاصل کر سکے۔تعلیم کے مذاق سے ہی قوموں کے ذہنی معیار کا اندازہ کیا جا سکتا ہے اورتعلیمی ترقی سیاسی ترقی کا پیش خیمہ ہوتی ہے اور تعلیمی تنزل سیاسی زوال کا مقدمہ بنتا ہے۔مقصدیت سے عاری،طبقاتی خلیج،غیراقوام کے نصابات کی تدریس اور قومی تقاضوں سے بیزارتنظیم تعلیم وہ عناصر اربعہ ہیں جنہوں نے تقدیس تعلیم کاصنعتی استحصال کر کے تو ایسی مصنوعی قیادت فراہم کی ہے جس نے ضمیر کی منڈیوں میں اپنے ملک و قوم کی کم سے کم بولی میں سبقت حاصل کر کے اقتدار کے بت کو راضی اوراپنے شکم کو ٹھنڈاکیا ہے اور پاکستان کی نسلوں کو گروی رکھ کر ملک میں میں آگ لگائی ہے۔تعلیم کے میدان میں پہلے بچے کے فطری رجحان کا پتہ لگانا ہو گاکہ فطرت نے بچے کو کس میدان کے لیے تیارکر کے بھیجا ہے۔جو بچہ خدا تعالی کے ہاں سے سپاہی بنا کر بھیجا گیا ہے اسکے ہاتھ میں چاک،ڈسٹراور رجسٹر پکڑا کر مدرسہ بھیجنے سے ترقی کا عمل رک جائے گا۔جس بچے کو فطرت نے فلسفی بنا کر بھیجا ہے اسے ضلعی انتظام سپرد کر دینے سے انتشار میں بڑھوتری ہو گی،طبیب بن کر آنے والے کو مشینوں میں الجھا دینے سے نسلی روابط میں خلیج وسیع تر ہوتی چلی جائے گی اور قیادت کاذوق لانے والے کو اگرفیکٹری میں مزدور لگا دیا جائے گاتو وہ ہمیشہ دوسرے مزدوروں کو اپنے پیچھے لگا کر تونظام کو جام کرنے کی سعی میں کوشاں رہے گا۔قومی ترقی کے لیے انفرادی ترقی بے حد ضروری ہے اور انفرادی ترقی تب ہی ممکن ہے کہ فرد کو اسکے فطری رجحان کے مطابق تیارکیا جائے اوریہ کام نظام تعلیم کا ہے۔بہت چھوٹی عمر میں بچے کی ذہنی صلاحیتوں کاادراک کرنا ہوگا،پھر ہر مرحلے پر اسکی تصدیق چاہنا ہوگی تب ایک طالب علم تعلیم کی بھٹی سے کندن بن کر نکلے گا اور معاشرے میں صحیح طرح سے پیوست ہو سکے گا۔بصورت دیگر خلاف فطرت پیشہ ملنے پرساری عمر نفسیاتی استحصال کااوردہری شخصیت شکار رہے گا،نظام کی خرابی کا شاکی رہے گااور کم ہمتی،سستی،کام چوری اور کاہلی کے ذریعے اپنی محرومیوں کا معاشرے سے نفسیاتی انتقام لیتا رہے گا اور اپنے پیچھے اپنی جیسی نسل چھوڑ جائیگا۔تعلیم میں پورے دن کی گزران کووزن دینا ہوگا،محض آٹھ گھنٹے گزارنے کی تعلیم فراہم کر دینے سے وہ اچھاڈاکٹر،وکیل،صحافی،سائنسدان،معلم یا کلرک وغیرہ تو بن جائے گا لیکن اچھا انسان نہیں بن سکے گا۔بقیہ سولہ گھنٹے میں جہاں وہ بیک وقت باپ،بیٹا،پڑوسی،بھائی،دوست،ہم سفر،شوہر،افسر،ماتحت اور نہ جانے کیا کیاہے،اسے بتانا ہوگا کہ وہ ان کرداروں سے کیسے انصاف کرے گا۔اور خاص کرپاکستان کے تناظر میں وہ ایک نظریاتی مستحکم مسلمان بھی ہے اور ایک امت کا فرد بھی ہے تو اسکو یہ کردار کس طرح ادا کرنا ہے۔پاکستان میں نصابات کی تیاری سے لیکرتنظیم تعلیم کے انتخاب سمیت امتحانات کی تکمیل تک تمام تر نظام پر نہ صرف یہ کہ نظر ثانی کی ضرورت ہے بلکہ بعض مقدمات تعلیم تو اس قدر بوسیدہ ہو چکے ہیں بلکہ متعفن ہو چکے ہیں کہ انکا اخراج بقائے نسل کے لیے ضروری ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان کی ترقی میں حائل رکاوٹوں میں ایک بہت بڑی رکاوٹ موجودہ نظام تعلیم ہے تو یہ جھوٹ نہ ہو گا۔

5۔:پانچویں ترجیح:معاشی خوشحالی
ضمیر کی تاریخ کے بازار میں سب سے زیادہ نیلامیاں اور سب سے کم دام ان قوموں کے لگے ہیں جن کی قیادت پیٹ بھر کر سوتی تھی اور عوام بھوکے۔ہاں عوام نے بھی اپنے پیٹ پرپتھرباندھا مگر جب قیادت کے پیٹ پر دو پتھر بندھے تھے۔اس آسمان کے نیچے انسان کی سب سے بڑی آزمائش اسکا خالی پیٹ ہے۔پاکستان کو معاشی خوشحالی کے لیے ارتکازدولت کو خیرآباد کہ کر توتقسیم دولت کا نظام اپنانا ہو گا۔سود کی لعنت نے غربت کو اسکی انتہا تک پہنچایا ہے۔شائلاکی ذہن اور بنیے کا ترازو مفلوک الحال سے نان شبینہ تک چھیننے کے درپے ہیں۔من حیث القوم ظالمانہ سامراجی و سرمایادارانہ نظام سے بیزاری اختیار کرتے ہوئے رائج الوقت معاشی نظام کو تدریجاََ عدل و احسان کے قریب تر لانا ہوگا۔معاشی خوشحالی کی ابتدا انفرادی و خاندانی سطح پر ہو گی،جس کے لیے پاکستان کوسائنس و ٹکنالوجی کی ترقی درکار ہے۔سائنس اور ٹکنالوجی کے ذریعے چلتی ہوااور بہتا پانی بھی پیدائش دولت کا ذریعہ ہوسکتا ہے۔پاکستان دھوپ کی دولت سے مالا مال ہے،ہرگھر پر شمسی توانائی کے یونٹ لگے ہوں گھر بھر کے برقی آلات اورچولھے مفت کام کریں،رات کو گاڑی کا سیل چارج کیا جاتا رہے اور دن کو آلودگی سے پاک ٹریفک مفت چلے اور اگر اس فارمولے کوصنعت و تجارت،مواصلات اور ذرائع نقل وحمل کے لیے بڑے پیمانے پر استعمال کیا جائے تو معاشی خوشحالی کی منزل حیرت انگیز حد تک قریب آ سکتی ہے۔زراعت کے میدان میں تو پاکستان کو سائنس و ٹکنالوجی کی ایمرجنسی کی ضرورت ہے تاکہ سونا اگلتی کھیتیاں اور محنت کش کسان وطن عزیز کوچار چاندلگا سکیں۔سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کرنے سے بے روزگاری دور ہو گی،گھرگھرخوشحالی کے دروازے کھلیں گے،فاقے رخصت ہوں گے تو صحت کا معیاربہتر ہوگا،جیب بھاری ہو گی توتعلقات میں وسعت آئے گی،پاکستان سے بھوک ننگ ختم ہو گی توان سے جنم لینے والے جرائم کا خاتمہ ہو گا،امن و امان میسر آئے گا اورپاکستان شاہراہ ترقی پر دنا کی قیادت و سیادت کرتا نظر آئے گا۔

6۔:چھٹی ترجیح:پائدار سیاسی نظام
سیاسی استحکام کے حصول کے لیے حقیقی قیادت کی ضرورت ہے جس کا منبہ تعلیمی ادارے ہوا کرتے ہیں۔تعلیمی اداروں میں علمی ماحول،تعلیمی مساوات اور اساتذہ کی نگرانی کے باعث کسی زورآور کا اپنی طاقت و قوت کے بل بوتے پر قیادت تک پہنچنا ممکن نہیں ہوتا ہے۔تقریبات،مجالس اور انجمنوں کے ذریعے ایسے نوجوان نکھر کر سامنے آئیں گے جو معاشرے کی حقیقی قیادت ہو گی۔انتخابات کے ذریعے ایسے نوجوانوں کی سیاسی تربیت اور بقیہ طالب علموں کو سیاسی شعور منتقل کیا جا سکے گا۔تعلیمی اداروں سے برآمد ہونے والی قیادت تعلیم یافتہ اور باشعور تو ہو گی ہی اسکے ساتھ ساتھ اس میں معاشرے کے تمام طبقوں کی نمائندگی بھی ہو گی ،یوں طبقاتی استحصال سے جنم لینے والی کشمکش کا بھی خاتمہ ہو سکے گا جو پاکستان کے سیاسی عدم استحکام کی اصل وجہ ہے۔تعلیمی اداروں میں یہ عمل روک دینے سے سیاست کا میدان دیہاتوں،کارخانوں اور بازاروں سے ابھرنے والی غیرمعیاری اور کاروباری قیادت کے ہاتھ میں چلا جائے گا جوقیادت کو جاگیر اور سیاست کو وراثت بنا لیتے ہیں۔تاہم یہ پوری قوم کی ذمہ داری ہے کہ طلبہ کو قومی و بین الاقوامی سیاست سے بہرحال دور رکھے تاکہ ان کا تعلیمی حرج نہ ہو اور ایسا معیار مرتب کیا جائے کہ قیادت صرف حقوق کی داعی نہ ہو بلکہ ادائگی فرائض میں بھی سرفہرست ہو۔رائے دہندہ کی کم از کم عمرچالیس سال مقررکی جائے کہ کارنبوت سے اس کی تصدیق ہوتی ہے اورقرطاس انتخاب پر صرف سیاسی جماعتوں کے نام ہوں،ہررائے دہندہ اپنی مرضی کی جماعت کے حق میں اپنی رائے دے اور جوجماعت جتنے فیصدکامیابی حاصل کرے اتنے فیصدپارلیمان کی نشستیں اس کو فراہم کر دی جائیں اورجوجماعت پورے ملک کے ہرضلع سے کوئی قابل قدر اعتمادحاصل نہ کرسکے اسے سیاسی نظام سے باہر کردیاجائے۔سیاسی نظام درست سمت اختیارکرے گا تو عدلیہ،انتظامیہ اور مقننہ کاقبلہ بھی درست ہو سکے گا

7۔:ساتویں ترجیح:بین الاقوامی وقار
پاکستان کواپنی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں دوستوں کاواضع تعین کرنا ہو گا۔اس میدان میں قرآن مجید کی بہترین راہنمائی موجود ہے۔ایک بار دھوکہ کھانے کے بعد پھروہیں اعتبار کر لینا اپنے وقار کو خود ختم کرنا ہے۔یہودونصاری پاکستان کے دوست ہو سکتے ہیں نہ ہی سرنگوں ترقی و کمال ممکن ہے۔دنیا میں سینکڑوں نہیں ہزاروں زبانیں بولی جاتی ہیں،لیکن ایک زبان ایسی ہے جو ہرقوم بآسانی سمجھ لیتی ہے اوروہ ”طاقت“کی زبان ہے۔ہرقوم سے اسی زبان میں بات کرنی ہو گی جووہ سمجھتی ہے۔لندن،نیویارک اور پیرس کے راستوں میں ذلت و رسوائی کے سواکچھ میسر نہیں ہوا۔عزت کارازصرف حرمین شریفین کی گرد میں ہی پنہاں ہے۔امت مسلمہ سے تعلق جوڑنے اورملت اسلامیہ کے شجرسایہ دارکوتناوروتنومندکرنے میں ہی پاکستان کا بین الاقوامی وقار ممکن ہے۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کاشغر
تاخلافت کی بنا دنیا میں ہوپھراستوار
لا کہیں سے ڈھونڈکراسلاف کا قلب و جگر
ترجیحات اگرچہ ایک ترتیب سے قلمبندکی گئی ہیں لیکن یہ باہم اس طرح پیوست ہیں کہ ایک کو ترک کر دینے سے باقیوں کااثرجاتا رہے گا۔یہ ترجیحات بنیادی ڈھانچے سے تعلق رکھتی ہیں تاہم پاکستان میں ان امورکی بھی اشدضرورت ہے؛
۱۔ترقی کے لیے منصوبہ بندی،
۲۔بدعنوانی کے خاتمے کے لیے نئے شہروں کی آبادکاری،
۳۔اداروں لے استحکام کے لیے انکی صرف اپنے میدان کار ہی میں توج
۴۔دفتری نظام کی اصلاح اور
۵۔نظام احتساب وغیرہ۔
(تمت بالخیر2/2)

اپنا تبصرہ بھیجیں