ترجیحات پاکستان ڈاکٹر ساجد خاکوانی-1

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ترجیحات پاکستان
(14اگست،اسلامی جمہوریہ پاکستان کے یوم آزادی کے حوالے سے خصوصی تحریر)
ڈاکٹر ساجد خاکوانی
drsajidkhakwani@gmail.com
(نصف اول)
1۔پہلی ترجیح:نظریاتی تشخص
دو قومی نظریے کی کوکھ سے پھوٹنے والا نظریہ پاکستان اس مملکت خداداد کا جواز حقیقی ہے۔23مارچ1940ء کے دن ہندوستان بھر کے مسلمانوں نے ایک قرارداد کے ذریعے،حصول پاکستان کے راستے اس نظریہ کو اپنی منزل بنایا۔برصغیر کے گلی کوچے ”پاکستان کا مطلب کیا۔لاالہ الاللہ“کے نعرے سے گونج اٹھے اور تقسیم کے خونین وقت،ہجرت کے عمل نے انبیاء علیھم السلام کی سنت تازہ کرتے ہوئے اس نظریہ کو عملی جامہ پہنانے کے عزم پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔جو نظریہ وجود مملکت کا باعث ہوتا ہے وہی نظریہ ہی ارتقائے سلطنت و ریاست کا ضامن ہوتا ہے۔گویا پاکستان کی ترقی نظریہ پاکستان کی اولین ترجیح سے ہی مشروط ہے۔وطن عزیزپاکستان کی ترقی کے لیے پہلی ترجیح کے طور پر نظریہ پاکستان کو ہی پاکستانیوں کا عقیدہ بنانا ہو گا،پاکستان کے معاشی،سیاسی اور معاشرتی نظام کو نظریہ پاکستان کاسہرا پہنانا ہوگا،نجی اور ذاتی زندگی سے لے کر بین الاقوامی معاملات تک اسی نظریہ کی بالا دستی کو قبول کرنا ہو گا،تعلیم،تدریس،دفاع اور دفتری معاملات کی ترجیحات میں اسی نظریہ کو اولیت دینا ہو گی اور نظریہ پاکستان کو پاکستان کی داخلی و خارجی پہچان بنانا ہو گی تب ہی آزادی کے ایک طویل عرصے کے بعد صحیح سمت میں سفر ممکن ہو سکے گا۔مشرق و مغرب میں پروردہ متعدد نظریات کی چکاچوند نے پاکستان اور اہل پاکستان کو احساس کمتری میں مبتلا کیا ہے۔ان میں سے کسی نظریے کی تنفیذ اس تسبیح کو دانہ دانہ کر دینے کے مترادف ہو گی جو پاکستان کی وحدانیت کا باعث ہے۔قرطاس تاریخ گواہ ہے کہ نظریات ہی اقوام کی پہچان ہوتے ہیں۔دیگراقوام کے نظریات اپنانے سے نہ صرف یہ کہ پاکستان اپنا وجودگم کر بیٹھے گا بلکہ ذلت،پستی اور گمشدگی کی ان اتاہ گہرائیوں میں جا پڑے گا جہاں سے واپسی ناممکنات عالم میں سے ہے۔نظریہ پاکستان دراصل اسلامی نظریہ فکروعمل کے سوتے سے پھوٹتا ہوا وہ شیریں چشمہ ہے جو پاکستان کے پس منظر میں نو مولود کے لیے شیر مادر کی حیثیت رکھتا ہے۔پاکستان کی ترقی کا راز اسی چشمے سے ہی سیرابی میں مضمر ہے۔پاکستان کے اندر انفرادی و اجتماعی مسائل کے حل کی ضمانت صرف اسی نظام میں ہے جو مکہ اور مدینہ کے راستے یہاں تک پہنچا۔پاکستان کی پیاس اسی اسی چشمے سے سیرابی میں ممکن ہے اور پاکستان کی شکم سیری اسی چشمے کے پانی سے تیار کی ہوئی فصلوں میں پوشیدہ ہے۔ قوم مذہب ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں (اقبال)

2۔دوسری ترجیح:قومی و ملی شعار کی ترویج
پاکستان میں یہ یقین بیدار کرنا ہوگا کہ آزادی میسر آچکی ہے،غلامی کے بادل چھٹ چکے ہیں،پاکستان کو اپنا سفر خود سے شروع کرنا ہے،آزادی کو بہت بڑی ذمہ داری سمجھنا ہے،اپنے فیصلے خود کرنا ہیں،سخت سے سخت فیصلے بھی کر گزرنا ہیں،پاکستان کو اپنے مفادات کا تحفظ خود کرنا ہے،اپنی باگ دوڑدوسروں کے ہاتھوں میں قطعاََ نہیں دینی اور دنیا میں اپنی آزادانہ حیثیت منوانا ہے۔آزادی کا شعور قومی و ملی شعائر سے ہی ممکن ہے۔کسی بھی قوم کا اولین شعار اسکی قومی زبان ہوا کرتی ہے۔پہلے انسان سے آج تک کسی قوم نے دوسری کسی قوم کی زبان سیکھ کر ترقی نہیں کی۔زبان ہی انسان کا درس اولین ہوتا ہے اور بڑی بڑی اقوام کے اعلی ترین ادب کی واحد بیساکھی زبان ہی ہوتی ہے۔قومی زبان اپنا چکنے سے پاکستان ترقی کی ابتدائی اور اہم منازل طے کر سکتا ہے۔اب تک قانون،قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عدالتوں کا ذریعہ غیر قومی زبان ہے اور پاکستانی قوم کی بہت بڑی اکثریت اسے سمجھنے سے قاصر ہے چنانچہ نفسیاتی انتقام کے طورپر،قوانین کا استہزااورقانون میں نقب زنی بہادری سمجھی جاتی ہے۔مستند طبی کتب اور طبی تکنالوجی غیر قومی زبان میں ہیں جو قوم کے ادراک سے باہر ہے چنانچہ طبی اصولوں سے عدم واقفیت کی بنا پر قوم بیمار سے بیمار تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔بنیادی معیاری تعلیم اور اعلی تعلیم غیرقومی زبان میں ہی میسرہے جس سے ناآشنائی کے باعث قوم میں جہل بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور جدید سائنسی تحقیقات اور تکنیکی فنون کی قومی زبان سے دوری کے باعث بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کچھ علاقے ابھی پتھر کے دور سے باہر ہی نہیں نکلے۔پاکستان کی ترقی کے لیے قومی زبان کو انتہائی حتمی استعداد تک اپنانا ہوگا بصورت دیگر غیرقومی زبان میں حاصل کی گئی کامیابیاں اسی قوم کے لیے کارآمدہوں گی جس کی زبان میں یہ کام کیا گیاہوگا اور پاکستان اپنے وسائل خرچ کرنے کے باوجوداسکے ثمرات محروم اور تشنہ کام رہے گا۔آزادی کے بعد گزشتہ آقاؤں کا طرزبودوباش اپنانے سے پاکستان کا تصور آزادی پہلے مجروح ہوگا اور پھر سلب ہو جائے گااور ایسی ذہنی غلام اور فکری علیل نسل پروان چڑھے گی جومقروض لہجوں پر فخوراور قومی و ملی میراث سے بیزار ہو گی اور اپنا آپ کہیں کھو چکی ہو گی۔پاکستان کو آزادی کا شعوراوراعتماد نفسی دینے کے لیے ماضی سے رشتہ جوڑنا ہو گا،اپنی مقامی معاشرتی روایات کو اپنانا ہوگا،ثقافتی اقدار،تمدنی طوراطواراورفنون لطیفہ سے غلامی کا زنگ اتار کر انہیں قومی شعائر سے مزین کرنا ہوگا، جس کاکہ سرچشمہ فیض نظریہ پاکستان ہے۔پاکستان ایک مملکت سے بڑھتے ہوئے ایک ملت کا بھی حصہ ہے،جزو سے کل کی جانب بڑھتے ہوئے پاکستان میں ملی شعائر کو فروغ دینا ہو گا جو پاکستان کو امت مسلمہ کی بین الاقوامی شناخت عطا کریں گے۔دنیا کو یہ بات باور کرانا ہو گی کہ شکم،خون اور جغرافیہ سے اعلی تر بھی کوئی جذبہ اس کرہ ارض پر موجود ہے جو اتحاد ملل کا باعث بن سکتا ہے۔چنانچہ ملی شعار کو اپناتے ہوئے انسانیت کے وسیع تر پلیٹ فارم سے رنگ، نسل،علاقہ،زبان اور مذہب کے تفاوت سے بالا تر ہو کر اپنا فیض عام کرنا ہو گا۔ ملت سے اپنے رابطہ استوار رکھ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ (اقبال)

3۔:تیسری ترجیح:دفاع
دفاع اگرچہ کسی بھی قوم کی پہلی ترجیح ہے لیکن یہاں نظریاتی تشخص اور قومی و ملی شعار کو اس لیے فوقیت دی گئی ہے کہ ابھی وہ سرمایا تو عنقا ہے کہ جس کا دفاع مقصود ہے۔تب پاکستان کوپہلے وہ سرمایا فراہم کرنا ہو گا پھر اولین ترجیح دفاع کو حاصل ہو جائے گی۔اس لیے کہ نومولودکا دفاعی نظام ہی اسکی بقا کی وجہ بنتا ہے،اگر دفاعی صلاحیت ماحول کا مقابلے میں مات کھا جائے تو جرم ضعیفی اسے عدم کا راستہ دکھا دیتی ہے۔اسلحہ کی دوڑ میں شرکت،آتشیں ہتھیاروں کا ڈھیر اور عسکری میدانی صلاحیتوں کا حصول صرف جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ کر سکتا ہے۔جبکہ قوموں کا وجودانکے عقائد،نظریات،تہذیب و تمدن اور ثقافت و روایات کا مرہون منت ہوا کرتا ہے۔جغرافیہ کے میدان میں شکست کے بعد قوموں کا وجود باقی رہ سکتا ہے لیکن تہذیبی جنگ میں شکست،اقوام کو صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دیاکرتی ہے۔نظریات کے میدان میں پسپائی کا منہ دیکھنا پڑ جائے توجغرافیائی جنگ کی نوبت ہی نہیں آیاکرتی۔پاکستان کو اپنے دفاع کے لیے عقائد اور نظریات کا تحفظ درکار ہے جن کے بغیر پاکستان پاکستان نہیں رہے گا۔تہذیبی یلغارسے پاکستان کادفاع کرنا ہوگا،پاکستان کی طرف بڑھتے ہوئے ثقافت اور واقفیت عامہ کے نام پر عریانیت،بے مقصدیت،علمی بے راہ روی،لذت نفسانی،آوارگی اور تن آسانی کے سیلاب سے وطن عزیز کو بچانا ہوگااور معیار زندگی میں بڑھوتری کے نام پر گزشتہ آقاؤں کی بودوباش اور رہن سہن کے رواج سے پاکستان کی آزادی کو بچانا ہو گا تب ہی وطن عزیزکا دفاع ممکن ہے۔پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے جس کا مقصد وجود”لاالہ الاللہ“ہے،اس مقصد کا دفاع ہی پاکستان کا دفاع ہے۔اگر یہ سرمایا سرزمین پاکستان سے رخصت ہو گیا توپاکستان اپنا جواز کھو بیٹھے گا اور ایک ایسی جسم کی مانند ہو جائے گا جس کی روح پرواز کر چکی ہوتب محض جغرافیائی سرحدوں کا دفاع ”وطن“نامی تازہ خدا کی پوجا پو گی۔پاکستان کے دفاع کے لیے جہاں علمی،ادبی،تحقیقی،تہذیبی،تاریخی،ثقافتی اور ایمان،اتحاداور تنظیم جیسے ہتھیاروں کی ضرورت ہے وہاں پوری قوم کو آتشیں اسلحے اور جدیدترین جنگی تکنالوجی سے لیس کرنا بھی ضروری ہے۔نظریات کو پیش قدمی کے لیے قوت اور طاقت کی پشت پناہی چاہیے ہوتی ہے۔ایسے میں ان ہتھیاروں سے بے نیاز ہوجانا کوئی دانشمندی نہیں۔ تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے ہے جرم ضعیفی کی سزامرگ مفاجات
(جاری ہے 1/2)

اپنا تبصرہ بھیجیں