” چلومیں ہاتھ بڑھاتاہوں دوستی کے لیے “(گزشتہ سے پیوستہ)

بسم اللہ الرحمن الرحیم
” چلومیں ہاتھ بڑھاتاہوں دوستی کے لیے “
(30جولائی،اقوام متحدہ کے عالمی یوم یارانہ کے موقع پر خصوصی تحریر)
(International Friendship Day)
ڈاکٹر ساجدخاکوانی
drsajidkhakwani@gmail.com
(گزشتہ سے پیوستہ) انسان دراصل روح اورجسم کامرکب ہے۔جسمانی امورحواس خمسہ کی دسترس میں ہیں جن کا مشاہدہ کیاجاناممکن ہے لیکن روحانی امور انسانی حواس کی پہنچ سے باہررکھے گئے ہیں۔احساسات و جذبات اورمحسوسات قلبی کاتعلق چونکہ انسان کے روحانی وجودسے ہے اس لیے ان کاادراک اظہارکے ذریعے توہوسکتاہے لیکن براہ راست مشاہدے کے ذریعے ممکن نہیں ہے،یعنی یہ ممکن نہیں کوئی دوسرے کے دل جھانک کردیکھ سکے کہ یہاں میرے لیے دوستی کے جذبات ہیں کہ نہیں تاآنکہ وہ خود اپنی دوستی کے جذبات کااظہارکردے۔دوستی ایک ایساتعلق ہے جوخالصتاََ روحانی اور غیرمادی وجودرکھتاہے۔دوستی کاتعلق بھی دیگرروحانی امورکی طرح اظہارسے ہی ممکن ہے۔دوستی دوانسانوں کے قرب سے مستعارہے جب کہ وہ ایک دوسرے کے لیے پیارمحبت اورقربانی کاجذبہ رکھتے ہوں۔دوستی کایک طرفہ یادوطرفہ ہوناایک اہم سوال ہے،یہ بھی ممکن ہے کہ دوستی یک طرفہ ہواورفریق ثانی کواپنی طرف اس لیے کشش کررہی ہوکہ یہ دوطرفہ ہوسکے اور یہ بھی قطعی طورپرممکن ہے کہ جس طرح تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے اسی طرح دوستی کے جذبات بھی فریقین کی جانب یکسانیت کے ساتھ کارفرماہوں۔اسی طرح نیتاََ دوستی کرنااور اتفاقاََدوستی ہوجانا بھی امرواقعی ہے کہ مشترکات دوستی کاباعث بن جائیں اوردوانسان اس تعلق میں ارادتاََ پروئے جائیں اوربعض اوقات بغیرارادے کے ایسے اسباب جنم لے لیں کہ وہ دوستی پرمنتج ہوں چکیں۔اسی طرح یکساں مزاج دوستی کاباعث بن جاتاہے،کبھی مشترکہ مفادات دوستی کاتعلق استوارکرلیتے ہیں،کبھی طویل باہمی رفاقت دوستی کی شکل اختیارکرلیتی ہے تو کبھی اچھے وقت کے ساتھی اورکبھی برے وقت کی سنگت بعدمیں دوستی کی شکل میں سامنے آجاتی ہے اورکبھی کبھی تو مشترکہ دشمن کی مخاصمت بھی دوستی کالبادہ اوڑھ لیتی ہے یعنی دوافرادکو تیسرے کی دشمنی دوست بنادیتی ہے،اوراس آسمان نے وہ دن بھی دیکھے کہ جگری یارجانی دشمن بن گئے اورکبھی اس کے کلیتاََمختلف بھی ہوگیا۔بعض لوگوں کی لغت میں دوقدم ساتھ چلنے والا بھی دوست ہوتاہے اور کچھ لوگ سالہاسال کے تعلق کو بھی آزمائش کی بھٹی سے گزارکرہی اسے دوستی کی سندعطاکرتے ہیں۔اس باب میں قرآن و سنت کی راہنمائی یہ ہے کہ دوست صرف وہی ہے جوجنت میں پہنچادے۔
بچپن اس لحاظ سے بہت قیمتی ہوتاہے کہ اس دورکے تعلقات بغیرکسی لاچ اور بناکسی طمع کے ہوتے ہیں،ہم جولی اکٹھے کھیلتے ہیں پھرکھیل میں لڑتے ہیں اورلڑتے لڑتے پھرکھیلنے لگتے ہیں اوریوں یہ تعلق دوستی کے مضبوط بندھن میں پختہ ترہوستاچلاجاتاہے۔انسانی زندگی کایہ زمانہ بھی بڑاعجیب ہوتاہے،سب کے غم بھی ایک جیسے ہوتے ہیں اور سب کی خوشیاں بھی یکساں نوعیت کی ہوتی ہیں۔بچپن کی دوستی میں اس سے بھی زیادہ خوبصورت بات یہ ہوتی ہے کہ لڑائی،جھگڑے،توتکار،اختلافات،مقابلے حتی کہ گالم گلوچ اورمارپیٹ تک بھی سب کے سب وقتی ہوتے ہیں،رات گئی بات گئی کے مصداق اگلے دن طلوع ہونے والا سورج سب کچھ گزشتہ رات کے کوڑے دان میں انڈیل کر دوستی کے نئے جذبات کے ساتھ طلوع ہوجاتاہے۔بچپن کے دوستوں میں کوئی امیراورکوئی غریب نہیں ہوتا،کوئی لائق اورکوئی نکمانہیں ہوتا،کوئی بڑااورکوئی چھوٹانہیں ہوتا،کوئی خوش لباس اور کوئی بدلباس نہیں ہوتا،کتنی عجیب بات ہے کہ سب کی جیب یکساں ہوتی ہے،کوئی دوسرے کے زیادہ کھانے کونہیں دیکھتا،کوئی دوسرے کی مہنگی سواری کونہیں دیکھتا،بے تکلفی اپنے عروج پرہوتی ہے،کوئی دوسرے کوآپ جناب نہیں کہتا،بس توتوسے ہی کام چلتاہے۔ایک دوست سائکل خریدتاہے تووہ سب کی سائکل ہوتی ہے اورسب ہی اس پرسوارہوتے ہیں اورسائکل کامالک دوست یہ نہیں کہتاکہ میں زیادہ دیرسواری کروں گا۔کوئی ایک دوست گڑیاخریدتی ہے سب دوست اس گڑیاکی خوشی میں اس کے بناؤ سنگھارمیں اور اس کی گڑیاکی شادی میں اور جہیزکے سامان میں برابرکی شریک ہوتی ہیں۔یہ وہ دورہوتاہے جب انسان میں ”میں“ ابھی جنم نہیں لیے ہوتی اورجیسے جیسے یہ ”میں“انسان میں جڑپکڑنے لگتی ہے تو خلوص کے رشتے کمزورپڑنے لگ جاتے ہیں۔یہ دورانسان کے لیے ساری عمرہوائے زیست(آکسیجن)کادرجہ رکھتاہے۔بچپن میں کھوکر مستقبل کے لیے کچھ مہلت ضمانت حیات لے لی جاتی ہے۔
لڑکپن میں دوستی کے معیارکچھ بدل جاتے ہیں۔اب شعور کے ساتھ ساتھ انسانی پیمانوں میں ارتقاء درآتاہے،پسندناپسندکے معیارات آڑے آنے لگتے ہیں،جسمانی ساخت میں تبدیلیاں جذبات میں مدوجزرکاباعث بنتی ہیں توکچھ تعلق اچھے لگتے ہیں اور کچھ قربتیں باعث کوفت ہونے لگتی ہیں اوریوں دوستی کے ترازومیں رکھے وزن کے باٹ اپناہم وزن تلاش کرتے ہیں جس میں ناکامی اور کامیابی دونوں کے امکانات ہیں،اور وقتی کامیابی کے بعدناکامی کامنہ بھی دیکھناپڑسکتاہے۔لیکن چونکہ عمرکایہ حصہ لاابالی ہے اس لیے جواچھالگتاہے وہ بہت اچھالگتاہے،اگروالدین منع بھی کریں تو والدین برے لگنے لگتے ہیں۔حکایت ہے کہ ایک نوجوان کودوست بہت عزیزتھے،والد بہت سمجھاتالیکن وہ نوجوان والد سے کہتاکہ آپ کو کیامعلوم۔ایک رات والدنے کہامیرے ساتھ چلو میں تمہیں بتاتاہوں دوست کیاہوتاہے۔رات گئے وہ دور بستی میں پہنچے،ایک گھرکادروازہ کھٹکھٹایا،آوازآئی کون؟؟نام بتایاگیا۔جب کافی دیرگزرگئی توبیٹابولابس یہی دوستی تھی،میزبان نام سن کرہی گھرمیں دبک گیا۔باپ نے صبرکی تاکیدکی۔تھوڑے توقف کے بعدمیزبان گھرسے نکلا،ایک ہاتھ میں بندوق،دوسرے میں ایک تھیلا اور یوں لگتاتھاکہ دروازے کے پیچھے بھی کوئی کھڑاہے۔دوست نے پوچھاکہ گھرسے نکلنے میں دیرکیوں لگادی،میزبان نے جواب دیاتم میرے دوست ہواوررات گئے آئے ہو،میں سمجھاشایدتمہاڑی لڑائی ہوگئی ہے اورتمہیں میری جان کی ضرورت ہے تومیں بندوق ساتھ لایاہوں چلودوست پرجان نثارکرتے ہیں،پھرمیں نے سوچاشایدتمہیں کچھ رقم کی ضرورت پیش آگئی ہے،تواس تھیلے میں میری پوری زندگی کی کل جمع پونجی ہے،قبول کرو۔میزبان نے بات جاری رکھتے ہوئے کہاکہ میں نے اندرسے دیکھاتھاکہ تمہاراجوان بیٹاتمہارے ساتھ ہے،میں سمجھاشایدتمہیں میری بیٹی کی ضرورت ہے تومیں بیٹی کوجگاکرلایاہوں وہ دروازے کے عقب میں کھڑی ہے،ابھی ان کانکاح پڑھادیتے ہیں۔
ڈھلتی عمر کی دوستیاں دراصل بچپن کی دوستیوں کے علی الرغم ہوتی ہیں الاماشااللہ۔مطلب کی دوستیاں،لالچ کے تعلق،حرص وہوس کی نظریں اور بے پناہ تکلفات سے بوجھل زندگی۔اس عمرکی دوستیوں میں خلوص کم اور مفادپرستی زیادہ ہوتی ہے،سب ایک دوسرے پریوں نظریں جمائے ہوتے ہیں کہ کیاکیافائدہ اینٹھاجاسکتاہے۔حالات نے انہیں ایک جگہ جمع کردیاہوتاہے،وہ کسی دفترمیں یاکسی ادارے میں یاکسی مالک کے ہاں مل کرکام کررہے ہوتے ہیں،ایک دوسرے کے لیے گڑھے کھودتے ہیں،سیاست بازیاں،گروہ بندیاں اور لسانی و علاقائی وجغرافیائی اکائیوں کی بنیادوں پر اپنے چھوٹے چھوٹے گروہ بناکر اپنے سے نیچے والوں کی قیمت پر اپنے سے اوپروالوں کا زبردست استحصال کرتے ہیں اورکبھی اوپروالوں کاخوف دکھاکرنیچے والوں پر اپنی دھاک بٹھاتے ہیں۔قول وفعل میں بعدالشرقین ہوتاہے،لسان و قلب میں وسیع خلیج واقع ہوتی ہے،کئی کئی چہروں کے مالک ہوتے ہیں۔جب ایک گروہ سے اچھی طرح دودھ نچوڑ لیتے ہیں تو دوستی پرچارحرف بھیج کراپناکنواں تبدیل کرلیتے ہیں۔ایک وقت میں کئی کئی لبادے ان کی بغل میں ہوتے ہیں جیسادیس دیکھتے ہیں ویسابھیس بدل لیتے ہیں۔یہی رویے انسانوں کے درمیان،سیاسی جماعتوں کے درمیان،مزدوروں کی منتخب تنظیموں کے درمیان اور ان مکروہ رویوں کو سوسے ضرب دے دیں تو بین الاقوامی تعلقات میں مختلف ممالک کے درمیان نظرآئیں گے۔یہ ممالک دوستی کاراگ الاپ کردوسری قوموں کو اپناذہنی،معاشی،تہذیبی اوردفاعی غلام بناتے ہیں اوران کے انسانی و قدرتی وسائل ہڑپ کرجاتے ہیں۔
دوستی کاایک تصورسیکولرازم نے بھی دیاہے؛پیٹ کی خواہش اورپیٹ سے نیچے کی خواہش پوری کرنے کے لیے دوستیاں لگانا۔اس مقصدکے لیے سیکولرازم نے ہوس نفس،جنسیت،خودغرضی،نفس پرستی،حیوانیت اورننگ نسوانیت کو پیار،محبت،عشق،وارفتگی اورالفت و چاہت کے نام دیے ہیں اورفلوں اورڈراموں کے ذریعے نوجوانوں کو یہ درس معکوس فراہم کیاہے۔اس طرح کے دوست جن کااشتراک مقصدشراب،شباب اورکباب ہوتاہے ان کے انجام پرقرآن مجیدنے بڑخوفناک تبصرہ کیاہے؛”اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَءِذٍ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ(۳۴:۷۶)“ ترجمہ:”اس دن جگری دوست ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوں گے،سوائے متقین کے“۔جن دوستیوں میں اللہ تعالی اوراس کے رسول کی قائم کردہ حدودکوپائمال کردیاجائے وہ بہت نرم گرم دوستیاں روزمحشر بدترین دشمنیوں میں بدلی ہوئی ہوں گی،جب عدالت الہیہ میں یہ ”جگری دوست“ایک دوسرے کو موردالزام ٹہرارہے ہوں گے توغضب الہی انہیں دوزخ کی طرف دھکیل دے گا۔ابھی بھی وقت ہے اورتوبہ کے دروازے کھلے ہیں،اللہ تعالی نے حکم دیاہے کہ ”یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ(۹:۹۱۱)“ترجمہ:”اے ایمان والوتقوی اختیارکرواور سچے(دوستوں)کاساتھ اختیارکرو“۔پس دوستی وہ جودوزخ کی آگ سے بچائے،اوراگرکوئی دوزخ والے کاموں کی طرف بلائے تووہ پکادشمن ہے جوخود بھی غضب الہی کاشکارہوگااوراپنے نام نہاددوست کوبھی دوزخ کے گڑھے میں لے جانے کاباعث بنے گا،العیاذبااللہ۔(تمت بالخیر)