غزل ڈاکٹر مظہر عباس رضوی

یہ نفسا نفسی یہ چھینا چھپٹی ہے سارا قرب و جوار پاگل
خواص بااختیار پاگل، عوام بے اختیار پاگل
نہین ہے یہ دور عاشقی کا، یہ کام سارا ہے دل لگی کا
یہ دیکھو پاگل پہ کر رہا ہے وہ اپنی جاں کو نثار پاگل
جو شادیاں چار کرکے لایے پڑے ہیں چت آج چاروں شانے
کہا تھا کس نے کہ یوں کریں وہ سروں پہ اپنے سوار پاگل
کہیں پہ مذہب کی بربریت کہیں علاقائی عصبیت ہے
یہ سب سیاست کے ہیں مداری بنائیں جو بار بار پاگل
نہ چھیڑو ان کو، نہ بھاگو پیچھے، نہ پھینکو ان پر اٹھا کے پتھر
جنوں کے پردے میں ہم نے دیکھے بہت سے ہیں وضعدار پاگل
وہ مار کر گھونسے اورلاتیں مفاہمت کی کریں ہیں باتیں
جسے جہاں بھی ملی ہے طاقت بنا وہی تھانیدار پاگل
مزے سے کرکے ڈبل گرانی ذرا سی تنخواہ بس بڑھادی
جنم جنم سے یہ ظلم سہتے ہیں سارے خدمت گزار پاگل
کسی کی صورت پہ مررہے ہیں کسی کو ہیں مارنے کے درپے
جو ڈھونڈیے تو ملیں گے مظہر گلی گلی بے شمار پاگل