غزل ڈاکٹر مظہر عباس رضوی

حصارِ عشق میں جب قافیہ پیمائی ہوتی ہے
خبر منے کی پیدائش کی گھر میں آی ہوتی ہے
ہوئے ہیں جب سے ہم پیدا یہی ہم نے سنااکثر
بجٹ جیسابھی آیے کچھ نہ کچھ مہنگائی ہوتی ہے
نہ بیگم سےکبھی ٹکرا کہ ہو جائے گا خود ٹکڑے
یہ ایسی جنگ ہے جس میں سداپسپای ہوتی ہے
ترقی کر گئے کھا کھا کے اب ہم بھی جسامت میں
کبھی لمبائ ہوتی تھی پر اب گولائی ہوتی ہے
سمجھ آتانہیں کیونکر میاں بیوی کے جھگڑے میں
تنازع کی وجہ اکثرحسیں ہمسای ہوتی ہے
ہے ان کی آمدن بالا توطرز زندگی اعلی
جہاں ہو دودھ میں پانی.، کہاں بالائی ہوتی ہے
پھسل جاتے ہیں اس پر سےبڑےنامی گرامی بھی
خو شامد میں عزیزم اسقدر چکنائی ہوتی ہے
گھروندے جیل کی مانند ہی لگتے ہیں شہروں میں
نہ ان میں صحن ہوتے ہیں نہ اب انگنای ہوتی ہے
رہِ طنز وظرافت ہے بہت پُرپیچ سی مظہر
یہ وہ رستہ ہے جس کے دونوں جانب کھائی ہوتی ہے