غزل* آفتاب مضطر

خواب جو کُوزہ گر کے خس و خاشاک ہوۓ
رَت جَگے بھی سب چاک پہ خاک و خاک ہوۓ

ہیرے نگینے مٹی کی خوراک ہوۓ
کیسے سچے موتی رزقِ خاک ہوۓ

اتنے دنوں میں شاطر ہو گیا سب ماحول
رفتہ رفتہ جب تک ہم چالاک ہوۓ

ایسی قُقنُسی شعلگی لپکی زیرِ جاں
اندر اندر جَل جُل کر ہم ، راکھ ہوۓ

کھلتے کھلتے یار کو شرم نے آن لیا
جب تک ہوتے ہوتے ہم بے باک ہوۓ

سنگ سمیٹے کیا کیا صاحب چُن چُن کر
آپ بھی صاحب کیا پارکھ حَکاک ہوۓ

گردش کے چکر سے نکل کر سوچتے ہیں
جانے چاکی تھے ہم یا پھر چاک ہوۓ

جھولی پھیلا کتنے ہی مُفلس خُوددار
اک اک دن میں سو سو بار ہلاک ہوۓ

صحنِ چمن میں کلیاں زیادہ مَسلی گئیں
لیکن چاک گریباں کم کم چاک ہوۓ

لیکن جانے اوروں میں تھا کیا جادو !
اپنے تئیں تو ہم بھی تمھارے لاکھ ہوۓ

تُم نے کھینچی آہ تو ہم نے کھینچا درد
تم غمناک ہوۓ تو ، ہم نمناک ہوۓ

شہپری زَعم جنھیں تھا زورِ بازو پر
وہی پرندے کل زیرِ فتراک ہوۓ

جاء الحق کی ظاہر جب تفسیر ہوئی
پول کُھلا تو ثابت سب کاواک ہوۓ

کَشِشِ ثَقل بھی ان کی کشش سے ہو صیَقل
اہلِ حسن میں ایسے بھی چکماک ہوۓ

تم نے بھی مضطر کوشش تو کی بَن چالاک
لیکن سیدھے سادے سے چالاک ہوۓ

خیر اندیش و ہیچ مدان :
* آفتاب مضطر *