ہماری شاعری میں اس کا حل پڑا ہوا ہے ڈاکٹر مظہر عباس رضوی

ہماری شاعری میں اس کا حل پڑا ہوا ہے
جو آج آپ کے ماتھے پہ بل پڑا ہوا ہے
کوی حقیقی کوی “ورچول” پڑا ہوا ہے
ہےاک سے ایک یہاں پر”چول” پڑا ہوا ہے
بجایا زوجہ نے بعد از نکاح وہ باجا
بجا تھا شادی پہ جو وہ بگل پڑا ہوا ہے
سبھی سمجھتے ہیں ان سا نہیں یگانہ کوی
دماغ میں یہ سبھی کے خلل پڑا یوا یے
سنا ہےگھوڑے بھی آکر یہاں پہ شرمایں
ایسیمبلی ہے کہ یہ اصطبل پڑا ہوا ہے
کہیں پہ ہم نے نہ پایا پھر ایسا خشک مزاج
لگے ہے دیکھ کے صحرائے تھل پڑا ہوا ہے
نکالے سب کےہی کس بل جو آئی مہنگائ
ہنسی سے پیٹ میں اب کس کے بل پڑا ہوا ہے
کہاں سے اٹھے کہاں بیٹھے کس کو ہے معلوم
براے دھرنا کہیں کوی چل پڑا ہوا ہے
کوی ہو سستا سا نسخہ بنام آزادی
وہ پوچھتے ہیں کہیں ” ارتغل” پڑا ہوا ہے
جو پوچھا بانگ َدرا کیا ہے بولے درے میں بانگ
کہ اب ببانگ دہل ہرجہل پڑا ہوا ہے
ہے شادی کے لیے سنگل کہیں بہت بے چین
بسورے منہ کہیں کوئی couple پڑا ہوا ہے
چرا سکو گے نہ اس کو کہ نیٹ پہ ہے محفوظ
ہمارا مجموعہ جو در بغل پڑا ہوا ہے
کہا یہ مٹھی دبا کر کلرک نے مظہر
تمہاری مٹھی میں مشکل کا حل پڑا ہوا ہے