” مزدور کا لیڈر بھی ہو مزدور تو ہے بات
مزدور کی قسمت میں کب کاروں کی بارات
” ہر شب جو کلبوں میں ہوں بدمست مئے ناب
کیا جانیں کہ مزدور نے کاٹی ہے کہاں رات
” یہ کرتے ہیں توہین غریبی کی ہماری!
قارون کے چیلوں نے کہاں بخشی مساوات
” انسان کو پیدا کیا اس خالق کل نے
پیدا کیے جس ذات نے ارض و سمٰوات
” وہ چاہے کرے جیسے کرے قادر مطلق
ہے کس کی یہ ہمت کہ کرے اس سے سوالات
” وہ چاہے یتیموں کو پیغمبر کا لقب دے
مٹی سے اگاتا ہے عجب رنگ کے باغات
” خیبر جو اکھاڑے اسے وجہ اللہ بنا دے
جس ہات میں کنکر ہوں اسے اپنا کہے ہات
” جی چاہے تو لے آے اس دشت بلا میں
جس کے لیے اک کھیل ہے اعجاز و کرامات
” دریا کے کنارے رکھے معصوم کو تشنہ
دے ریت کو عزت تو پشیماں ہو فرات
” مقتول کو تو زندہ جاوید بنائے
ملعون کو قاتل کہے مات پہ کھا مات
” اس رب کی ہے تقسیم انوکھی میرے بھائی
کیا جانے اسے مشرک و ملحد کی خرافات
” چھینا ہے غریبوں کا اگر حصہ کسی نے
مل جائے گا واپس کہ نہیں کوئی بڑی بات
” ہے شرط مگر ایک کہ تسلیم کرو تم
” طابع ہیں خدا کے یہ جمادات و نباتات
وہ رزق کا ضامن ہے تیری جاں کا محافظ
” وہ چاہے تو پیدا کرے شب و روز سے دن رات
عزت دے کسی کو تو کسی کے لیے ذلت
” جس حال میں رکھے ہے اسی کی عنایات
ہم پر ہے اطاعت فقط اس ایک کی لازم
” لیڈر کی خرافات سے نکلے گی خرابات
یہ ملیں بنیں گی کسی بجلی کا نشیمن
” تم دیکھو تو کیا ہوتا ہے اب دور نہیں بات
مزدور نہ ہو خوش تو ہے لعنت ہی وطن پر
” باغی ہو جو مزدور تو ہے ختم ہر اک بات
یہ ملک دیا جس نے سمجھا لے گا اسے وہ
” ہے چشم کرم ساقی کوثر کی عنایات
کچھ بات دعاوں سے بھی ہوجاتی ہے حاصل
” ہم بھول گئے طرز فغاں رسم عبادات
مزدور تھا خود والی امت تھا اگرچہ
مزدوری غریبی تو اسی نور کی سوغات
” کر شکر کہ مولا نے تجھے اپنا بنایا
بے چین نہ ہو بھائی بڑے غور کی ہے بات
” لعنت ہے وہ دولت کہ جو خود غرض بنائے
لعنت ہے وہ لیڈر کہ جو ہو مستِ خرابات
“لعنت ہے وہ غربت کہ جھکے کفر کی جانب
رحمت ہے وہ غربت کہ جو پاجاے نجات
” اسلام نے ہر مسئلہ حل کرکے دکھایا
مشرق کا ہے اعجاز نہ مغرب کے کمالات
” واصف نے غریبوں کو ہے یہ مژدہ سنایا
اب آنے کو ہے دور کہ بس بھاگیں گے جنات
کتاب: شبِ چراغ
سرکار حضرت واصف علی واصف رحمۃ اللّٰہ علیہ