حبیب جالب پیدائش 24 مارچ

اردو شاعر حبیب جالب 24 مارچ 1928ء میں قصبہ دسویا ضلع ہوشیار پور، صوبہ پنجاب میں پیدا ہوئے۔ اینگلو عربک ہائی اسکول دہلی سے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔ بعد ازاں گورنمنٹ ہائی اسکول جیکب لائن کراچی سے مزید تعلیم حاصل کی، روزنامہ جنگ اور پھر لائلپور ٹیکسٹائل مل سے روزگار کے سلسلے میں منسلک ہوئے۔
پہلا مجموعہ کلام برگ آوارہ کے نام سے 1957ء میں شائع کیا، مختلف شہروں سے ہجرت کرتے ہوئے بالآخر لاہور میں مستقل آباد ہو گئے اور ان کا یہ شعر ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا۔

یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے
آزادی کے بعد کراچی آ گئے اور کچھ عرصہ معروف کسان رہنما حیدر بخش جتوئی کی سندھ ہاری تحریک میں کام کیا۔ یہیں ان میں طبقاتی شعور پیدا ہوا اور انھوں نے معاشرتی ناانصافیوں کو اپنی نظموں کا موضوع بنایا۔ 1956ء میں لاہور میں رہائش اختیار کی۔

سیاسی حالات زندگی
ایوب خان اور یحیی خان کے دور آمریت میں متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔ جالب کو 1960ء کے عشرے ميں جيل جانا پڑا اور وہاں انہوں نے کچھ اشعار لکھے ”سرِمقتل” کے عنوان سے جو حکومتِ وقت نے ضبط کر لیے ليکن انہوں نے لکھنا نہيں چھوڑا۔ جالب نے 1960ء اور 1970ء کے عشروں میں بہت خوبصورت شاعری کی جس ميں انہوں نے اس وقت کے مارشل لا کے خلاف بھرپور احتجاج کيا۔

جب پاکستان میں پرویز مشرف نے ایمرجنسی لگائی تو مشرف کے سیاسی مخالفین کے جلسوں میں حبیب جالب کی شاعری دلوں کو گرمانے کے لیے پڑھی جاتی تھی۔

کارہائے نمایاں
شہرت
1958ء میں پہلا آمریت کا دور شروع ہوا، 1962ء میں اسی ایوبی آمریت نے نام نہاد دستور پیش کیا جس پر جالب نے اپنی مشہور زمانہ نظم کہی جس نے عوام کے جم غفیر کے جذبات میں آگ لگا دی،

میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا 1970ء کے انتخابات کے بعد جنرل یحییٰ خان نے اقتدار اکژیتی پارٹی کو منتقل نہیں کیا اور اس کے جواب میں ان پر گولیاں برسایئں اس وقت مغربی پاکستان اس فوج کشی کی حمایت کر رہا تھااس وقت یہ جالب صاحب ہی تھے جو کہے رہے تھے؛

محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
1974ء میں وزیر اعظم بھٹو جن کے کندھوں پے بیٹھ کر مسند اقتدار پر پہنچے تھے ان سب کو نام نہاد حیدرآباد سازش کیس میں بند کر دیا، اسی دور میں جالب صاحب کی یہ نظم بہت مشہور ہوئی:

قصر شاہی سے یہ حکم صادر ہوا
لاڑکانے چلو، ورنہ تھانے چلو
ضیاء الحق کے مارشل لا میں جب حیدرآباد سازش کیس ختم ہوا اور اس کے اسیروں کو رہائی ملی تو انہوں نے اوروں کی طرح بھٹو دشمنی میں نہ ہی ضیاءالحق سے ہاتھ ملایا اور نہ ہی فسطائیت کے ترانے گائے بلکہ انہوں تو کہا :

ظلمت کو ضیا ء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
آمریت کے بعد جب پیپلز پارٹی کا پہلا دور حکومت آیا اور عوام کے حالات کچھ نہ بدلے تو جالب صاحب کو کہنا پڑا:

وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھریں ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
تخلیقات
صراط مستقیم
ذکر بہتے خوں کا
گنبدِ بے در
کلیات حبیب جالب
اس شہرِ خرابی میں
گوشے میں قفس کے
حرفِ حق
حرفِ سرِ دار
احادِ ستم
فلمی کام
انہیں مشہور پاکستانی فلم زرقا میں ’رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے‘ لکھنے پر شہرت حاصل ہوئی۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے کئی فلموں کے لیے گیت لکھے جن میں:ہم ایک ہیں‘موت کا نشہ ‘ناگ منی‘دو راستے‘ زخمی‘ بھروسا اور چند اور فلمیں بھی شامل ہیں

تاثرات
ابتدا میں جگر مراد آبادی سے متاثر تھے اور روایتی غزلیں کہتے تھے۔ حبیب جالب کی سیاسی شاعری آج بھی عام آدمی کو ظلم کے خلاف بے باک آواز اٹھانے کا سبق دیتی ہے۔ حبیب جالب کی پوری زندگی فقیری میں گزری ۔

اپنی زندگی میں حکومتی مخالفتوں کے ساتھ ساتھ عوامی حمایت کا بھی ایک جم غفیر ان کے ساتھ تھا۔ جن میں ہر شعبۂ زندگی کے لوگ شامل تھے۔ جن سے آپ کسی نہ کسی قسم کا فائدہ اٹھا سکتے تھے مگر انہوں نے ایک معمولی سا فائدہ نہ اپنی ذات کے لیے اٹھایا اور نہ اپنے اہل خانہ کو کچھ حاصل کرنے دیا۔ ان کے بچے معمولی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر کے جوان ہوئے ۔

اعزازات
ان کو نگار فلمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
اس کے علاوہ 2006ء سے ان کے نام سے حبیب جالب امن ایوارڈ کا اجرا کیا گیا۔
آخری ایام
ان کا انتقال 12 مارچ 1993ء کو ہوا ۔ لاہور کے قبرستان سبزہ زار میں دفن ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں