خورشید کا اعجاز

23 مارچ ۔ پروفیسر خورشید احمد کی سالگرہ کے موقع پر ایک خصوصی تحریر
تحریر: وجیہ احمد صدیقی
پروفیسر خورشیداحمد سے تعارف ان کی کتاب اسلامی نظریہ حیات کے ذریعے ہوا۔جوکہ ہمارے بی اے کے نصاب میں شامل تھی اور یہ مضمون ہمارے کیمونسٹ اور ملحد پروفیسر ڈاکٹر م ر حسان پڑھاتے تھے ۔ ڈاکٹر م ر حسان کلاس میں اپنے ملحدانہ خیالات کا بر ملا اظہار کرتے تھےاور نہ جانے انہوں نے کیسے بھانپ لیا تھا کہ میں ان کے مخالف نظریات کا حامی ہوں ۔مجھے ان کی کلاس میں جانے کے لیے ایک دن پہلے اس چیپٹر کا اچھی طرح مطالعہ کرنا پڑتا تھا، کیونکہ ڈاکٹر م ر حسان مجھ سے ہی زیادہ سوالات کرتے تھے ان کا کہنا تھا کہ ایک نظریاتی کارکن کو اپنے نظریات کا پختہ علم ہونا چاہیے ۔پروفیسرڈاکٹر م ر حسان نے نہایت دیانت داری سے ہمیں اسلامی نظریہ حیات پڑھا یا ۔خود انہوں نے کیمونسٹ مینی فیسٹو کا اردو ترجمہ کیا تھا اشتمالی منشور۔وہ تو 1985 میں ہی اس دنیا سے چلے گئے اور ہمیں پروفیسر خورشید احمد سے متعارف کراگئے ۔اردوکالج کے بارے میں معلوم ہوا کہ یہاں میجر آفتاب حسن کے شاگردوں اور عملے میں پروفیسر خورشید احمد اور پروفیسر عبد الغفور احمد بھی شامل تھے ۔ کیا دلچسپ اتفاق تھا کہ مجھے میجر آفتاب حسن کی محفل میں اس طرح فیض اٹھانا لکھا تھا کہ سائنٹفک سوسائٹی میرا مدرسہ تھا جہاں میجر آفتاب حسن میرے استاد تھے اور عظمت علی خان صاحب عملی دنیا کے اتالیق۔آفتاب حسن صاحب بڑے ہی فخر سے بتایا کرتے تھے کہ خورشید میرا شاگرد ہے ۔پروفیسر خورشید احمد سے ہماری ملاقات 1988 میں ہوتی ہے جب ہمیں محترم برادر خالد رحمٰن صاحب شعبہ پارلیمانی امور کی ذمہ داری دیتے ہیں اورکام یہ ہے کہ اخبارات میں خبروں کی موضوعات کے لحاظ سے فائلیں تیار کی جائیں ۔ اردو اور انگریزی کے کوئی 8 سے 10 بڑے اخبارات تھے ان سب سے کٹنگ اور کلپنگ تیار کرتے کرتے شام کے 4 بج گئے ۔ پروفیسر خورشید احمد دفتر تشریف لائے اور ان کا مطالعہ کیا اور کہا کہ میں جسارت میں شائع ہونے والے آپ کے مضامین پڑھتا رہا ہوں ۔ ماشااللہ بہت اچھے ہیں ۔یہ میرے لیے بہت بڑا اعزازتھا جو کہ پروفیسر خورشید احمد نے مجھے دیا۔پھر کلپنگز کی فائل کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک بار پھر تعریف کی آپ نے بہت اچھی محنت کی ہے ۔ لیکن ڈان کی فلاں خبر رہ گئی ہے ، نیشن کا وی مضمون رہ گیا ہے ۔ مسلم میں فلاں کا انٹرویو نہیں شامل کیا آپ نے ۔۔۔۔ اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ جب اتنے سارے اخبار خود پڑھ لیتے ہیں تو ان کلپنگز کی کیا ضرورت ہے ۔ لیکن مجھے بعد میں اس مشق کی سمجھ آئی وہ اسی نظریاتی کارکن کو تیار کررہے تھے جس کے بارے میں میرے کیمونسٹ استاد پروفیسر ڈاکٹر م ر حسان نے کہا تھا کہ ایک نظریاتی کارکن کو اپنے نظریات کا پختہ علم ہونا چاہیے۔میں نے پروفیسر خورشید احمدسے ایک بار پوچھا کہ آپ ہر کتاب پر نشان کیوں لگاتے ہیں انہوں نے کہا کہ مطالعہ کرتے وقت ان حصوں کو یاد کرلیتا ہوں ۔ایک بار مجھے رائو محمد اختر کے ساتھ پروفیسر خورشید کے گھر جانے کا موقع ملا رائو صاحب کو ان کے گھر کی لائبریری سے کوئی کتاب لینی تھی مجھے موقع مل گیا میں نے رینڈیم لی کئی کتابیں نکالیں ہر کتاب پنسل کے نشانات سے بھری تھی ۔ پروفیسر صاحب نشان پنسل سے لگاتے ہیں ۔میں نے پروفیسر صاحب سے پوچھا کہ آپ بھولتے کون سی چیز ہیں انہوں نے کہا کہ گھر کے کام ۔جس تیز رفتاری سے ان کا ذہن کام کرتا ہے اسی تیز رفتاری سے وہ بولتے بھی ہیں جس کو سمجھنے کے کے لیے بڑی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے ، یہ مہارت جناب خالد رحمٰن صاحب کو حاصل ہے ۔پروفیسر صاحب کی مرحومہ اہلیہ بھی بعض اوقات چکرا جاتی تھیں ۔ خالد رحمٰن صاحب بتاتے ہیں کہ ایک بار انہوں نے پروفیسر صاحب کے گھر فون کرکے پوچھا کہ بھابی پروفیسر صاحب کہاں گئے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ بھیا بتا کر تو گئے ہیں لیکن سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا بتایا ہے ۔پروفیسر صاحب بہت تیز رفتاری میں بتا کر چلے گئے تھے ۔میں نے ایک بار ایک اہم سیمینار میں یہ نوٹ کیا کہ پروفیسر صاحب پر غنودگی طاری ہے اور اس وقت جو مقرر لیکچر دے رہا ہے وہ پروفیسر صاحب شاید سن نہیں رہے ۔ لیکن جب پروفیسر صاحب نے اختتامی تقریر میں سارے سیمینارکی تقاریر کا خلاصہ بیان کیا تووہ تمام باتیں شامل تھیں جو ان کی غنودگی کے عالم میں کہی گئی تھیں۔مجھے افسوس ہے کہ میں نے پیشہ صحافت کی خاطر انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز سے کو چھوڑا اور علم کے اس سمندر سے دورہوا ، لیکن شاید قسمت میں یہی لکھا تھا ۔اسلام آباد سے کراچی آنے سے پہلے پروفیسر خورشید احمد برطانیہ منتقل ہورہے تھے اور اپنے قائم کردہ ادارے کو مضبوط اور توانا ہاتھوں میں دے کر جارہے تھے ۔ اس دن 23 مارچ تھا یوم پاکستان اورپروفیسر خورشید کی سالگرہ کا دن ۔اس تقریب میں ہم بھی شریک ہوئے تھے ۔اللہ تعالیٰ پروفیسر صاحب کو ہماری قوم کے لیے سلامت رکھے کہ یہ وہ شخصیت ہیں جنہوں نے ملک اور قوم کے لیے خود انحصاری کا منصوبہ پیش کیا تھا لیکن وزیر اعظم نوازشریف میں اتنا حوصلہ نہ تھا کہ اس منصوبے پر عمل کرتے۔ خورشید صاحب نے اس منصوبے کی تمام کاپیاں واپس منگوالی تھیں ۔ پروفیسر صاحب الحمدللہ بقید حیات ہیں کوئی بھی حکومت ہو اگر وہ چاہتی ہے کہ ہم اپنے وسائل پر انحصار کریں تو انہیں یہ چاہیے کہ پروفیسر خورشید احمد کے خودانحصاری کے کلیے پر عمل کریں ۔ بلکہ انہوں نے اپنی تازہ ترین کتاب پاکستانی معیشت کی صورت حال مسائل اسباب اور لائحہ عمل میں بھی پاکستانی معیشت کی بہتری کے لیے تجاویز دی ہیں۔ان کی زندگی کیسے گزری اور اس میں کس طرح انقلابی تبدیلیاں آئیں وہ انہوں نے ایک مضمون میں بیان کی ہیں اس مضمون سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں جو عرفان احمد بھٹی اور عبدالرئوف صاحبان کا مرتب کردہ ہے اور شاید یہ اظہر نیازصاحب کی ویڈیو پروڈکشن کا حصہ ہے ۔مضمون کا عنوان ہے ” میری علمی و مطالعاتی زندگی (پروفیسر خورشید احمد کے مشاہدات و تاثرات)اس مضمون میں پروفیسر خورشید کہتے ہیں ” اللہ تعالیٰ کا میرے اوپر یہ بڑا فضل رہا ہے کہ میں نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی، وہ دینی اور علمی دونوں اعتبار سے ایک اچھا گھرانا تھا۔ میرے والد مرحوم علی گڑھ کے پڑھے ہوئے تھے۔ انہوں نے سیاسی زندگی میں تحریک خلافت مسلم لیگ اور قیام پاکستان کے لیے جدوجہد میں بھرپور حصہ لیا۔ والد محترم کے دینی، سیاسی اور ادبی شخصیات سے گہرے روابط تھے اور ایسے سربرآوردہ حضرات کا ہمارے ہاں آنا جانا تھا، اس لیے بچپن ہی میں دہلی کی ادبی اور ثقافتی زندگی سے استفادے کا موقع ملا۔ بچوں کی ایک انجمن دلی میں تھی جس کا میں سب سے کم عمر صدر منتخب ہوا۔ جامعہ ملیہ میں سپورٹس‘ مباحثوں اور بیت بازی میں شرکت کی۔ گھر کی فضا میں مجھے اقبال، حالی، غالب کے کلام کو پڑھنے کا موقع ملا۔ بیت بازی میں شرکت کرنے کے لیے سینکڑوں اشعار یاد کرنے کا موقع ملا۔ اس پہلو سے ایک ایسی فضا تھی جس سے مجھے اوائل عمر ہی سے علمی اور ادبی ذوق سے مناسبت پیدا ہوئی۔ اس وقت یہ ٹھیک سے یاد نہیں ہے کہ میں نے پہلی کتاب کون سی پڑھی، لیکن اس دور میں چونکہ اشعار بہت یاد کیے تھے، اس لیے ممکن ہے حالی کی مسدس اور اقبال کی بانگ درا بہت چھوٹی عمر میں پڑھی ہو اور اشعار بھی یاد کیے ہوں۔ باقاعدہ کتابی مطالعہ میں نے اپنے کالج کے دنوں میں شروع کیا، لیکن انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں مجھے پرائمری اور سیکنڈری میں ہی لکھنے اور بولنے کا شوق پیدا ہوا۔ چناں چہ محمد علی ٹرافی نو یا دس سال کی عمر میں حاصل کی۔جن لوگوں سے میں پہلے پہل متاثر ہوا، ان میں ابوالکلام آزاد، محمد علی جوہر، جواہر لال نہرو، مولانا حسرت موہانی تھے اور اتفاق کی بات ہے کہ نہرو کی دو کتابیں میں نے میٹرک کی عمر میں پڑھ لی تھیں‘ایک” گلیمفسز آف ہسٹری”اور دوسری” لیٹرز آف فادر ٹو ڈاٹر”۔یہ دونوں دراصل خطوط ہیں جو اندرا گاندھی کو نہرو نے لکھے تھے۔ ان میں بہت خوب صورت انداز میں تاریخ کو بیان کیا گیا ہے۔ چونکہ جواہر لال نہرو کو میں نے پڑھا، اس لیے میرا تھوڑا سا رجحان اشتراکیت کی طرف ہوا لیکن سا تھ ساتھ چونکہ تحریک پاکستان میں میرے والد سرگرم تھے‘ اس لیے میں ’’بچہ مسلم لیگ‘‘ میں بھی شامل تھا۔یہ بڑا دلچسپ معاملہ تھا جس کے تحت اسلام‘ پاکستان‘ مسلمانوں کی آزادی اور قومی تشخص کی طرف جھکاؤ تھا۔ اس لیے میں جب پاکستان آیا تو یہاں مجھے پہلی مرتبہ مولانا مودودیؒ سے ملنے اور ان کے لٹریچر کو پڑھنے کا موقع ملا۔ مولانا کو میں نے بچپن میں دیکھا ہوا تھا۔ 1938یا 1939کی بات ہے جب مولانا ہمارے ہاں تشریف لائے۔ میرے والد صاحب کے ان سے دوستانہ مراسم تھے اور میں نے ان کو اس زمانے میں ایک انقلابی غزل سنائی تھی۔ اس کے بعد میں نے جب مولانا مودودی صاحب کی تصانیف کا مطالعہ کیا تو بالکل ایک دوسری دنیا مجھ پر کھلی۔ مولانا کی جن دو کتابوں نے جو مجھے بہت متاثر کیا وہ خطبات اور تنقیحات ہیں۔ تنقیحات اگرچہ ذرا مشکل کتاب ہے، لیکن چونکہ میرا ذہنی رشتہ اشتراکیت سے تھا اس لیے اس کتاب نے مجھے بہت متاثر کیا۔ بالخصوص اس کے دو مضامین ’’ہماری ذہنی غلامی اور اس کے اسباب‘‘ اور ’’ہندوستان میں اسلامی تہذیب کا انحطاط‘‘۔ اس زمانے میں، میں نے نو مسلم علامہ محمد اسد کی تحریروں کو پڑھا۔ پاکستان بننے کے بعد 1947 تک ان کے رسالے عرفات کے 6یا 7 شمارے شائع ہوئے تھے جو میں نے بڑی تلاش کے بعد حاصل کیے۔ جمعیت کے زمانے میں انگریزی ہفت روزہ اسٹوڈنٹس وائس نکالا جو پاکستان میں طلبہ کا پہلا رسالہ تھا۔ اس پلیٹ فارم نے مجھے بہت اچھے مواقع دیے۔ مباحثوں میں حصہ لینا، اسلام کی دعوت پیش کرنا اور پھر اس وقت کی غیر اسلامی تحریکوں کو سمجھنا اور ان یک مقابلے میں اسلام کی بالادستی کو پیش کرنے کی کوشش کرنا۔ مغرب کے لکھنے والوں میں سب سے پہلے میں جس سے متاثر ہوا، وہ پروفیسر سی ایم جوڈ تھے۔ ان کی ایک کتاب تھی ماڈرن تھاٹس اگرچہ یہ بہت اونچے درجے کے فلسفی نہیں تھے، لیکن ان کا اہم کارنامہ مغرب کی فکر کو بڑے صاف ستھرے انداز میں اور آسان انداز میں پیش کرنا ہے۔ پھر وہیں سےبرٹرینڈرسل سے متعارف ہوا، اس کو پڑھا اور اس سے تاثر بھی لیا۔ میرا خیال یہ ہے کہ برٹرینڈرسل بیسویں صدی کے فلسفیوں میں بہت ہی نمایاں نام ہے۔ اس دوران میں معاشیات میں بھی دلچسپی پیدا ہوئی۔ اللہ کا فضل تھا کہ اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ کی وجہ سے مغربی فکر کو پڑھنے اور مغرب کو سمجھنے کے باوجود اس کے حملے سے میں بچ گیا۔ میرے پاس ایک معیار تھا، اپنے دین کا اسلامی فکر کا جس پر میں چیزوں کو جانچتا تھا، اس لیے کبھی میں ان چیزوں سے مرعوب نہیں ہوا۔ مولانا مودودیؒ نے قرآن کریم سے میرا رشتہ استوار کیا۔ دینی تعلیم میں اہم کردار ماسٹر محمد اکرم مرحوم و مغفور کا ہے جو حافظ قرآن بھی تھے اور خوش الحان قاری بھی۔ ان کی حیثیت ہمارے لیے ایک اتالیق کی تھی۔ قرآن مجید کو پڑھنے اور سمجھنے میں پہلے محمد اکرم صاحب اور پھر مولانا کی تفہیم القرآن نے ایک کلید کا کام سرانجام دیا۔”پروفیسر خورشید احمد کے علمی اور سیاسی کاموں کا احاطہ کرنا بہت ہی مشکل ہے ان کی 5 یا 6 کتابوں کی تیاری میں ہم نے حصہ لیا تو اس کاتذکرہ بھی پروفیسر صاحب نے اپنی کتابوں میں کر ڈالا اور ہم تو امر ہوگئے کہ ہمارا ذکر بھی کتابوں میں آگیا۔
[2:03 am, 21/03/2022] Wajeh Ahmad:

اپنا تبصرہ بھیجیں