قلم شگوفیاں۔ توڑ۔ تحریر سبطین ضیا رضوی

قلم شگوفیاں۔
توڑ۔ تحریر سبطین ضیا رضوی
ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی انفرادیت اور خوبصورتی یہ ہے کہ ہمارے پاس تقریباَ ہر مسئلہ کا حل اور ہر مشکل اور الجھن کا توڑ جوڑ موجود ہے۔ شاید آپ یہ سوچیں کہ آج میرا اچھوتا موضوع جگاڑ ہے۔ یقین کریں کہ نہیں ۔ آج میں صرف توڑ کی بات کروں گا۔ چند مشہورو معروف مسائل اور ان کےتوڑ پر بات ہو گی۔ ایک عمومی توڑ تو ہر مسئلہ کا ہوتا ہے۔ جسے عموماً دفتری زبان میں کہتے ہیں کہ میاں فائل کو پہیے لگاؤں ۔ بڑی پرانی بات ہے کسی دور میں میرا ایک کام جو کہ بالکل جائز اور حلال تھا بلکہ خالص مباع بھی تھا۔ مثلاً اس معاشرے میں پیدا تو وقت پر ہونا مگر اپنے پیدا ہونے کا ڈھنڈورا نہ پیٹنا ۔ میرا مطلب نہ سرکار کو خبر نہ یونین کونسل میں خبر وغیرہ۔ چپ چاپ جوان ہونا۔ اور پھر ضرورت پڑنے پر توڑ کرنااور مسئلہ حل کروا لینا۔ میں اپنے پاسپورٹ کے چکر میں متعلقہ آفس گیا۔ میرا کام تو ہو گیا۔ مگر جب وہاں سے نکلا کسی نے انکل کہ کر آواز دی۔ گاؤں کا لڑکاتھا مگر میں چوکہ بہت کم گاؤں جاتا ہوں۔ تعارف پر عقدہ کھلا کہ موصوف میرے ایک پرائمری سکول کلاس فیلو کا بیٹا ہے۔کہتا ہے کہ شناختی کارڈ دیا ہے مگر بابو کہ رہا ہےنقل پیدائش لاؤ۔ وہ ا بیچارہ ایک ایجینٹ کو ہی بابو مجھ رہا تھا۔ وہ ایجنٹ کہتا ہے یہ لازمی ہے اس کے بغیر فائیل آگے نہیں جائے گی۔ میرے استفسار پر اس نےفائیل کو وہیل لگانے کا کہا۔ کہ ایک ہزار دیں تو میں اندر جاکر اعتراز ختم کروا لوں گا۔ یونین کونسل والے زیادہ لیں گے چکر بھی لگوائیں گے۔ یہ ایک آسان توڑ ہے۔ یہ تھے فائیل کے پہیے جسے بعد میں مجھے بغیر پہیوں کے ہی منزل مقصود پر پہچانا پڑا۔ صرف متعلقہ دفتری نمائیدہ سے میں نے وہ متعلقہ قانون و ضوابط کا تحریری ثبوت پوچھ لیا تھا۔
اس طرح کبھی کسی دفتر میں یہ سننے کو ملتا ہے۔ کہ بیچ میں بندہ ڈالو۔ جس کو آپ اور دفتر والے جانتےہوں۔ بھئ کونسا ایسا بندہ ہے جس کو ہر موقع محل پر فریقین جانتے ہوں ۔ تو جواب ملتا ہے قائد اعظم ۔ بھئی وہ توفوت ہو چکے ہیں۔ جواب ملا ان کی تصویر۔ عرض کیا حضور تصویر تو آپ کے سر پر ٹنگی ہے۔کہنے لگے جو کرنسی نوٹوں پر چھپی ہوتی ہے۔ اس کو ہر بندہ اور بچہ بچہ جانتا ہے۔
وہ بچپن میں سنا تھا کہ بندے کا دارو بندہ۔ یعنی بندے کا توڑ بھی بندہ۔
پولیس سے کوئی کام نکلوانا ہے تو۔ کسی پیٹی بھائی سے فون کروا لیں۔ اے ایس آئی کا توڑ کسی ایس آئی یا ایس ایچ او سے کہلوا لو۔
پٹواری کا توڑ اس کا قانونگو یا گرداور۔ تحصیل آفس کا کام تو اسکا توڑ ان ہی کےدفتر کا کوئی معروف بندہ جیسے پی اے یا ریڈر وغیرہ بہترین توڑ ہیں۔ بات کسی سیاسی اکھاڑے سے متعلق ہو تو۔ حکومتی پاڑٹی کا کوئی وزیر مشیر ایم پی اے یا ایم این اے بہترین توڑ ہے۔
کسی آفیسر سے متعلق اڑے ہوئے کام کا بہترین توڑ اس کے ساتھ کا یا سینئر آفیسر۔ کیونکہ مشہور کہاوت ہے کہ آخر بھینسیں بھینسو ں کی بہنیں ہوتی ہیں۔ جسے پنجابی میں “مجھاں مجھاں دیاں بھیناں ” کہتے ہیں۔
میں نے اکثر انتہائی پیچیدہ مسائل کا کوئی نا کوئی توڑ نکلتے دیکھا ہے۔ کسی پر لڑیائی جھگڑے کے بعد تگڑا کیس بنانے کے لیئے مطلوبہ طبی نتیجہ کے حصول کے لیئے کوئی مہربان ڈاکٹر مل جاتا ہے۔ کیونکہ اس ڈاکٹر کا توڑ نکل آتا ہے۔ فریق مخالف کے وکیل کو مقدمے سے ہاتھ کھینچنے اور گواہ کو چپ کروانے کا توڑ بھی کوئی بندہ ہی نکلتا ہے۔
لنگڑا آدمی اپنے اپاہج پن کا توڑ نکال کر ڈرائیونگ لائسنس لے لیتا ہے۔ سیانا وکیل قانون کی شق کو شق سے ملا کر کبھی ضرب دے کر کبھی تقسیم اور بٹے میں اڑا کر یا تفریق کر کے۔ اور ایکس کی قیمت نکال کر اس قانونی پیچیدگی اور موشگافی کا کوئی توڑ نکال لیتا ہے۔
اب تو تیز ترین محکموں مثلاً نادرہ اور ان کے کمپوٹرازڈ ڈیٹا اور فنگر پرنٹ کا بھی توڑ نکال لیتے ہیں بلکہ اے ٹی ایم مشین کو رام کر کے اس پر کوئی چھو منتر کر کے لوگوں کی جمع پونجی تک نکال لیتے ہیں۔ کسی بھی فرد کے نام پر پانچ سموں تک نکال کر ان پر پیسوں کا لین دین اور کسی کے نام پر بنکوں میں اکاؤنٹ کھول لینا وغیرہ ہر مسئلے کا بہترین توڑ موجود ہے۔ لوگ بغیر امتحان دیے اور داخلہ “تارے ” تعلیمی اسناد رکھتے ہیں آخر وہ بھی تو کوئی توڑ کرتے ہیں۔ پھر ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے۔ چاہیے جعلی ہی ہو۔ یہ سارے واقعات ہمارے میڈیا پر رپورٹ ہوتے ہیں ۔آپ زرا اپنے ارد گردنظر دوڑائیں ۔ آپ کوہر مسئلے کے توڑ مل جائیں گے۔ لے دے کر سرکار کے پاس اس تمام جرائم پیشہ افراد کے خلاف کوئی پائیدار اور مؤثر توڑ کیوں نہیں۔