فیمن ازم ؟

خواتین کی شادی، اعلی تعلیم،ملازمت، بچوں کی پرورش اور خاندان کی دیکھ بھال کے موضوع پر گفتگو ہو تو فیمنزم کی تحریک کو اس کے انتہائی طاقتور اثرات کی بنا پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

فیمنزم ایک ایسا طاقتور belief system ہے اور اس کے اثرات اس قدر طاقتور اور ہمہ گیر ہیں کہ اسلامی معاشروں میں بھی اس کو ناصرف مقبولیت ملی بلکہ ایک بڑی تعداد فیمنزم اور اسلامی فکر میں کوئی اختلاف یا تضاد بھی محسوس نہیں کرتی اور سمجھتی ہے کہ یہ دونوں نظریات باہم مل کر چل سکتے ہیں۔

یہ اور بات ہے کہ خود ہارڈ کور فیمنسٹوں کے لیے بھی یہ خیال قابل قبول نہیں ہوسکا۔

فیمنسٹ تحریک ایک سماجی و سیاسی لہر کے طور پر انیسویں صدی میں شروع ہوئی۔ اس کی ابتدا تو خواتین کو بنیادی حقوق مثلا ووٹ کا حق، حق ملکیت اور رائے سازی کے فورمز میں شریک کرنے کے نعروں سے ہوئی۔ یاد رہے کہ یہ زمانہ امریکہ و یورپ میں سفید فاموں کے ہاتھوں سیاہ فاموں کی غلامی کے خلاف بیداری کی تحریک کا زمانہ تھا اور اسی بیداری کی لہر کے دوران سفید فام خواتین بھی اس مطالبے کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئیں کہ جب آپ “سیاہ فاموں تک” کو حقوق دے رہے ہیں تو عورتوں کو کیوں پیچھے رکھا جارہا ہے؟ البتہ بعد کو یہ سیکولرزم کے سیلاب میں سول رائٹس کی دوسری تحریکوں کے ساتھ اپنے ایک واضح belief system کے طور پر سامنے آئی۔

فیمنزم کی دوسری لہر امریکہ میں بیسویں صدی میں اٹھی اور یہ وہی زمانہ ہے جب ہر قسم کی سول رائٹس تحریکوں نے طوفان اٹھایا ہوا تھا۔ اس لہر کے دوران فیمنسٹ اور سوشل سائنٹسٹس جن میں ماہرین نفسیات، سماجی کارکنان، ادیب اور فلاسفہ وغیرہ شامل تھے جنس، صنفی امتیاز، جنسی رحجان اور صنفی کردار کی ساری انسانی تاریخ اور کسنرکٹ کی بنیادوں کو متنازعہ بنارہے تھے۔

کہا گیا کہ اندھی ارتقائی نیچریت کے نتیجے میں ظہور پذیر ہونے والی بائیولوجیکل جنس ہی انسان کی جنس اور صنف کا تعین کیوں کرے؟ یہ حق انسان کو خود ملنا چاہیے کہ وہ کوئی بھی جنس اختیار کرلے۔ اسی طرح کہا گیا کہ مرد عورت کے بیچ جنسی کشش کی بنیاد پر ان دونوں ہی کے درمیان جنسی و رومانی تعلق کی طویل تر انسانی تاریخ تو محض سوشل کنسٹرکٹ ہے۔ اور اسی طرح عورت اور مرد کے کردار اور ذمہ داریوں کا تعین بھی محض سماج کے طے کردہ معیارات ہیں۔ اسے
Sex, Gender identity, gender expression and gender role
کے ناموں سے ایسےالگ الگ تصورات کے طور پر پیش کیا گیا جو ایک دوسرے سے متعلق اور لازم و ملزوم نہیں ہیں

مرد گھر سے باہر ملازمت کرے، معاشی ذمہ داریاں اٹھائے ، ریاست کا کاروبار سنبھالے اور عورت بچے پیدا کرے، گھر سنبھالے ۔۔ یہ محض سماج کے بنائے معیارات ہیں۔ اگر سماج کی فکر اور رویوں کو تبدیل کردیا جائے تو یہ کردار اور امتیاز مٹ جائے گا۔ لہاذا اس سماجی فکر اور رویوں کی تبدیلی کے لیے تحریکیں چلانی چاہییں۔

یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ اس زمانے میں مشہور ماہر نفسیات جان بالبی نے اٹیچمنٹ تھیوری پیش کی۔ جس کے مطابق خصوصا پہلے برس میں بچے اور ماں کا تعلق بچے کی شخصیت، اس کے رویے اور اس کے مستقبل کے بننے والے تعلقات کے پیٹرن پر بہت اہم اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس کی تھیوری اور تحقیق کا نتیجہ یہ تھا کہ جن بچوں کی مائیں ابتدائی برس میں جسمانی یا جذباتی پر موجود نہیں ہوتیں، ان کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کئی دوسرے ماہرین نفسیات نے بھی اپنی تحقیقات اور تھیوریز میں بچے کی تربیت میں خصوصاً ماں کے کردار کی اہمیت کو بیان کیا۔

اب یہ زمانہ تو خواتین کو ” domestic cult” اور مرد کی معاشی و سماجی اتھارٹی کے “پنجوں” اور چادر اور چار دیواری کے “جبر” سے آزاد کروانے کا زمانہ تھا ۔ ایسے موقع پر ان تھیوریوں نے طوفان تو اٹھایا۔

فیمنسٹوں نے ناصرف اس پر اعتراضات کیے بلکہ اس کا یہ نتیجہ نکالا گیا کہ عورت کا بائیولوجیکل وجود، حمل رضاعت سب ایک “قدرتی /ارتقائی” بوجھ ہے۔ عورت اور اس کا کردار اپنی اصل میں کوئی شے نہیں بلکہ مرد اور معاشرے نے اپنا کاروبار چلانے کے لیے یہ ذمہ داریاں عورت پر لادیں اور حمل، رضاعت اور بچے کی پرورش کے سارے پراسس کو عورت کے استحصال کے لیے استعمال کیا۔ انسان ہونے کا اصل معیار مرد ہے۔ لہذا عورت کو اپنے اس “نسوانی ایکسپریشن” کے خلاف بغاوت کرنی چاہیے۔ مذاہب پر بھی تنقید ہوئی کہ یہ بھی “مردوں” کے گھڑے نظام ہیں۔

بہرحال اس طور ارتقاء، نیچریت اور سیکولرازم کے اس دور میں خدا یا کسی الہامی ہدایت کا وجود مائنس کردیا گیا اور انسانوں کے لیے صحیح غلط کے سماجی، مذہبی اور اخلاقی پیمانوں کو ظلم اور جبر کہہ کر مسترد کردیا گیا۔ انسانوں کے لیے “بہتر حکمت عملی” کے طور پر معاشرے کے انفرادی و اجتماعی معیارات کا پیمانہ خود انسانی ذہن بنادیا گیا۔

اسی لیے جو لوگ فیمنزم کو محض خواتین کی ایڈوکیسی اور عورت کے “حقوق” کی “کوئی بھی” اور “کیسی بھی” آواز سمجھتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ وہ بھی جو باعمل مسلمان خواتین پر اس طرح کا لیبل لگاتے ہیں اور وہ مسلمان مردو زن بھی جو ایک طرف تو اسلام اور الہامی ہدایات کو ضابطہ حیات اور صحیح غلط کا پیمانہ سمجھتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ فیمنسٹ ہیں۔
خود فیمنسٹوں نے ان پر اعتراضات کیے ہیں۔ بزعم خود “اسلامی فیمنزم ” کے داخلی تضاد پر خود فیمنسٹوں کے اعتراضات نوٹ کیے جانے چاہییں۔

پاکستانی عوام کے لیے بھی یہ تحریک اجنبی نہیں ہے۔ بلکہ اس دوسری لہر کی ابتدا سے ہی تقسیم سے قبل اور بعد کے برصغیر میں اس کے طاقتور اثرات نظرآتے ہیں۔ اسی اور نوے کی دہائی میں خصوصاً ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف تحریک میں فیمنسٹوں اور سیکولر طرز فکر رکھنے والوں نے ہراول دستے کا کردار ادا کیا اور اس زمانے میں صرف آمریت کے جبر نہیں بلکہ چادر اور چار دیواری کے “تقدس” کے “سماجی کنسٹرکٹ” پر کڑے حملے کیے گئے اور پردے، دوپٹے ، وغیرہ وغیرہ پر میڈیا اور سماجی طاقت کا استعمال کیا گیا۔

فیمنزم کی دوسری لہر اپنی اصل میں مرد مخالف اور نسوانیت کے خلاف بغاوت کی تحریک تھی۔ عورت کے لباس سے لے کر اس کے کردار تک میں اس کی نسوانیت پر اعتراضات کیے گئے اور اس کے خلاف بغاوت کی گئی “bra burning campaigns”، مقابلہ حسن، فیشن اور کاسمیٹک انڈسٹری کے خلاف آواز اٹھائی گئی۔

“میرا جسم میری مرضی” کے نعرے کا مطلب یہ طے پایا کہ،

1. “مجھے اپنی جنس اور جنسی رحجان کے انتخاب کا اختیار ہے”۔

2. مجھے اپنے سماجی کردار کو طے کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ میری مرضی ہے کہ میں بچے پیدا کروں یا نہ کروں۔ میری مرضی ہے کہ میں اپنی بائیولوجیکل جنس کو قبول کرنے کے باوجود اس سے منسلک صنفی کردار کو قبول نہ کروں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ مشہور اینکر ایلن ڈی جینیرس اپنی بائیولوجیکل جنس کو قبول کرتی ہے، اپنے جنسی رحجان کو تبدیل کرکے ہم جنس پرستی کا اعلان کرتی ہے اور اپنے جینڈر ایکسپریشن کو مرد رکھتی ہے۔ لہذا اس کا لباس مردانہ ہوتا ہے اور اس کے جنسی تعلق میں بھی وہ مردانہ لباس اور حیثیت میں شریک ہوتی ہے۔

3. مجھے حمل ضائع کرنے یا برقرار رکھنے کا حق ہے۔ اور ابارشن ناصرف قانونی عمل قرار پایا بلکہ اس سے قبل مرد پارٹنر کی مرضی کا رائے کا حق بھی تسلیم نہیں کیا گیا۔ ابارشن اب محض عورت کا فیصلہ ہے۔

4. Prostitution
“سیکس ورک” کا درجہ دیا گیا۔

5. سماجی اور ریاستی opportunities اور ذمہ داریوں میں مکمل برابری کا مطلب صرف یہ نہیں کہ عورتوں کو مردوں کے برابر تعلیمی، پیشہ ورانہ اور سماجی ذمہ داریوں کے مواقع فراہم کیے جائیں گے بلکہ اس کا مطلب پھر یہ بھی ہے کہ چونکہ دونوں کے درمیان کسی قسم کی کوئی تفاوت ہے ہی نہیں، اس لیے ان سے ایسی کسی ذمہ داری کی ادائگی میں بھی کسی قسم کی نرمی کی توقع نہ رکھی جائے۔

فیمنزم کی تیسری لہر نے اپنی مادر تحریک سے مختلف موڑ لیا۔ عورتوں نے کہا کہ ان کی نسوانیت ان کے اظہار ذات کا ذریعہ ہے۔ لہاذا مقابلہ حسن ہو یا فیشن انڈسٹری یا سماجی رویے اور معیارات، برہنگی اور عریانیت کو انڈسٹری اور سماج میں ناگزیر قدر اور عورت ہونے کا لازمی تقاضا بنادیا گیا۔ عریانیت اور کم از کم جسمانی نمائش اور جنسی جبلت کے اظہار کے اعتبار سے نسوانی ایکسپریشن ناصرف قبول ہے بلکہ عورت کا حق ہے کہ وہ برہنگی اور مشاطگی کے ذریعے اپنی نسوانیت کا اظہار کرے۔

اسی طرح مرد کا بائکاٹ کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے شانہ بشانہ چلا جائے اور جنسی تعلقات سے لے کر سماجی معاملات میں ہر جگہ ایک کیا بلکہ ایک سے زائد مردوں سے تعلق رکھنے سے بھی فیمنزم پر کوئی حرف نہیں آتا۔

یہاں پر یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ نفس کے غلاموں کے لیے اپنی پہلی سوچ پر قائم رہنا کیونکر ناممکن تھا۔

فیمنزم کی چوتھی لہر پوسٹ ماڈرن ازم کا حصہ ہے۔ مگر اس کے core beliefs اور خواتین کے حقوق کی ایڈوکیسی کے معاملے میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔

“میرا جسم، میری مرضی” کی یہی تعبیر ہے۔

مجھے مغرب میں رہتے بستے کام کرتے کئی برس ہوگئے ہیں، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور انگلینڈ جانے اور رہنے کا موقع ملا ہے۔ میرا کام ہی سول رائٹس اور مینٹل ہیلتھ والوں کے ساتھ ہے۔ اگر کوئی بزرجمہر آپ کو یہ جتائے کہ فیمنزم یا میرا جسم میری مرضی سیکولر فکر نہیں ہے یا اس سے آپ کی اسلام اور مسلمانیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا، تو وہ یا تو آپ کو بے وقوف سمجھ رہا ہے یا بے وقوف بنا رہا ہے۔

یہ بہرحال آپ کی مرضی اور انتخاب ہے کہ آپ ضابطہ حیات میں خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات ، یا انسانی فکر میں سے کس کا انتخاب کرتے ہیں۔ آپ کو اس کا بھی حق ہے کہ آپ دلیل یا عقیدے کی بنا پر اپنے انتخاب کی پرزور حمایت کرتے رہیں ۔ مگر یہ بددیانتی ہے کہ آپ لوگوں کو یہ جتانے کی کوشش کریں کہ یہ دونوں نظام فکر ایک دوسرے کے ساتھ
Compatible
ہیں۔ یہ سیدھا سیدھا خدا بمقابلہ انسان کا معاملہ ہے اور ایک کا حق اختیار تسلیم کرنے سے دوسرے کا حق خود بخود ختم ہوجاتا ہے۔
اب آپ کو انتخاب کی آزادی ہے!

آج کی تحریر کا ہماری گذشتہ تحریروں سے کیا تعلق ہے؟ اس کو بشرط توفیق و فراغت ان شاءاللہ آئندہ ڈسکس کریں گے۔

JS
تحریر: جویریہ سعید