عمران خان چین کس لیے جارہے ہیں ؟ تحریر وتجزیہ: وجیہ احمد صدیقی

وزیراعظم عمران خان 3 فروری سےچین کا دورہ کریں گے۔ ان کا تین روز سرکاری دورہ 5 فروری کو ختم ہو گا۔وزیراعظم عمران خان کے ہمراہ 5وزراء چین جائیں گے، ان کے ناموں کا ابھی اعلان نہیں کیا گیا ہے ۔ وزیراعظم نے وزراء کو دورہ چین سے متعلق تیاری کی ہدایت کی ہے۔لیکن خدشہ یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی اس دورے میں چین کے صدر شی جنگ پن سے ان کی ملاقات نہیں ہوپائے گی ۔جبکہ عمران خان اس ملاقات کی پوری کوشش کریں گے ۔قصہ یہ ہے کہ عمران خان بیجنگ میں ہونے والے سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے بہانے چین جارہے ہیں ۔ یہ ان کی اولمپکس ڈپلومیسی ہے ، کیونکہ چین کی طرف سے انہیں اس دورے کی دعوت نہیں دی گئی ہے وہ اس موقعے کا فائدہ اٹھا کر چینی حکام کے ساتھ اپنے روابط استوار کرنے کی کوشش کریں گے۔اس کی کئی سیاسی وجوہات ہیں ۔ عمران خان کے دور حکومت میں چین کی پاکستان میں سرمایہ کاری کو بہت نقصان پہنچا ہے ۔ عمرانی حکومت نے بھارت اور امریکہ کو آوٹ آف دی وے رعایتیں دی ہیں ۔ کرتار پور کوریڈور اور افغانستان سے امریکی انخلاء کے وقت اسلام آباد کے تمام ہوٹلزامریکی فوجیوں کے حوالے کرنا شامل ہے ۔جس سے چین کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے ۔اس کے علاوہ امریکی سی آئی اے کے سابق ملازم معید یوسف کی قومی سلامتی کے معاون کے طور پر تقرری بھی چین کے لیے تشویش کا باعث ہے ۔اس سے قبل چین جنرل (ر) عاصم باجوہ کی موجودگی میں سی پیک پر کام کرنے والے چینی انجینئروں کے ساتھ دہشت گردی کے واقعات پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا ، جس کے بعد جنرل (ر) عاصم باجوہ کو فارغ کرنا پڑا تھا ۔وزیر اعظم عمران خان چین کو منانے جارہے ہیں ۔اسی لیے گزشتہ سال 10 چینی کارکن اور انجینئرزقتل ہوئے تھے او ر 26 زخمی ہوئے تھے ۔وزیراعظم کی جانب سے مقتول اور زخمی چینی انجینئرز کے خاندانوں کے لیے ایک کروڑ 16 لاکھ ڈالرز( گیارہ اعشاریہ چھ ملین ڈالرز)کے ازالے کی رقم کی منظوری دی ہے ۔ یہ پاکستان کی روایات کے بالکل برخلاف ہے ۔ داسو کے دہشت گردی کے واقعے کے بعد سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں سرد مہری آگئی تھی ۔چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور سی پیک پاکستان کی اقتصادی ترقی کی بہت بڑی ضمانت ہے ۔ لیکن 2014 سے پی ٹی آئی اس کے خلاف کام کررہی ہے اور اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان کی حکومت نے اس منصوبے کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔لیکن یہ 50 ارب ڈالر کا منصوبہ ہے ۔لیکن اب جبکہ امریکہ کی خطے میں دلچسپی ختم ہو گئی ہے اور بائیڈن عمران حکومت کو کوئی اہمیت نہیں دے رہے ہیں ۔تو گزشتہ دنوں وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی چین کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے 11اعشاریہ 6 ملین ڈالر کی رقم داسودہشت گردی کے واقعے مارے جانے والے اور زخمی ہونے والوں کے لیے پیش کی جارہی ہے ۔پاکستانی وزارت خزانہ کہتی ہے کہ یہ سب کچھ خیر سگالی کے لیے کیا جارہا ہے ۔چین پاکستان میں دریائے سندھ پر داسو ہائیڈرو پاور ڈیم بنا رہا ہے اس ڈیم کے نام پر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار قوم سے اربوں روپے کے فنڈز جمع کرچکے ہیں ۔چین کا گیز ہویوبا گروپ چینی سرمایہ کاری سے اس ڈیم کی تعمیر کررہا ہے ۔گزشتہ سال جولائی میں اس منصوبے پر کام کرنے والے 10 چینی کارکنان دہشت گردوں نے قتل کیے تھے اور26 چینی اس حملے میں زخمی ہوئے تھے۔جبکہ 4 پاکستانی بھی قتل ہوئے تھے اور 13 زخمی ہوئے تھے ۔ان کو معاوضہ دیا گیا ہے یا نہیں معلوم نہیں ۔عمران خان کی حکومت نے جو معاوضہ پیش کیا ہے وہ چینی کمپنی کے مطالبے کے مقابلے میں بہت کم ہے ۔چینی کمپنی نے 38 ملین ڈالر کا مطالبہ کیا تھا ۔ لیکن پاکستانی حکومت نے بات چیت کی اور یہ طے ہوا کہ چین میں اس قسم کے واقعات اور حادثات میں جو معاوضہ دیا جاتا ہے پاکستانی حکومت اس سے دگنا معاوضہ دے گی ۔عمرانی حکومت نے داسو کے دہشت گردی کے واقعے کو پہلے ایک حادثہ ظاہر کرنے کی کوشش کی تھی ۔عمران خان کا فروری کا دورہ چین کو منانے کی کوشش ہوگی ۔یہی وجہ ہے کہ سنکیانگ کے معاملے میں چین کے موقف کی عمران خان نے کھل کر چین کی حمایت کی ہے ۔سنکیانگ کی وجہ چین پر ہونے والی مغربی تنقید کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر عمران خان نے کہا کہ ’چین کی طرف سے ایغور کے ساتھ ہونے والے برتاو کے حوالے سے مغرب میں بہت تنقید ہو رہی ہے۔ ہم نے چین میں اپنے سفیر معین الحق کو وہاں بھیجا اور انہوں نے رپورٹ دی ہے کہ زمینی حقائق بالکل مختلف ہیں۔‘دراصلسی پیک اتھارٹی کے سابق چیرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم باجوہ نے اس منصوبے پر کوئی کام نہیں ہونے دیا ۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ عاصم باجوہ کے دور میں دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ تعاون کمیٹی کا ایک بھی اجلاس نہیں ہوا اور اس حوالے سے بھی عاصم باجوہ پر یہ تنقید کی گئی ہے کہ وہ ایک سال تک سی پیک آرڈیننس کی مدت ختم ہونے کے باوجود کام کرتے رہے اور پھر مئی 2021 میں اسی وجہ سے سی پیک بل پاس کیا گیا۔جنرل عاصم سلیم باجوہ کے بطور سی پیک اتھارٹی سربراہ دو سالہ دور میں ایک بھی مشترکہ تعاون کمیٹی کا ایک بھی اجلاس نہ ہونا خاصا معنی خیز ہے۔یہ بات بھی معنی خیز ہے کہ پاک فوج کے ایک سابق کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل (ر) طارق خان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ہے کہ وہ سی پیک منصوبے میں امریکہ کو شامل کرے ۔ان کا یہ مطالبہ ہماری تو سمجھ سے باہر ہے ۔ امریکہ نے دنیا میں کہیں بھی کسی بھی ملک میں ترقیاتی منصوبوں میں سرمایہ کاری نہیں کی ہے اس کی سرمایہ کاری اسلحے اوراس ملک کے نظام اور معاشرت کو اپنے مطابق بنانے کے لیے ہوتی ہے جسے وہ پرسیپشن مینجمنٹ کہتے ہیں ۔اس وقت طارق خان نے نہیں دیکھا کہ چین کے خلاف امریکہ مشرق بعید میں نئی سازشیں شروع کررہا ہے ۔پاک فوج کے افسران کب امریکی ذہنی غلامی سے باہر آئیں گے ؟ ۔ یاد رہے کہ چینی حکومت نے گزشتہ جمعہ کوجاپان کے وزیر اعظم فومیو کی شیدہ اور امریکہ کے صدر جو بائیڈن کے درمیان طے پانے والے سربراہی اجلاس پر ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
چین وزارت خارجہ کے ترجمان زاو لی جیان نے کہا کہ امریکی اور جاپانی سربراہی اجلاس میں تائیوان، سنکیانگ اور ہانگ کانگ مسائل پر بات چیت کے خلاف ردعمل کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ “ہمارے داخلہ معاملات میں خارجہ مداخلت ناقابل قبول ہے”۔ترجمان زاو لیجیان نے مذکورہ آن لائن اجلاس میں زیرِ بحث لائے گئے موضوعات کے حوالے سے کہا ہے کہ “ٹوکیو اور واشنگٹن، بیجنگ پر ناحق الزامات لگا کر ملک کے داخلہ معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں۔ تائیوان، سنکیانگ اویغور خودمختار علاقے اور ہانگ کانگ سے متعلقہ مسائل کُلیتاً چین کے داخلی معاملات ہیں اور ان معاملات میں کسی بھی ملک یا بیرونی طاقت کی مداخلت قبول نہیں کی جائے گی”۔لی جیان نے کہا ہے کہ کسی بھی فرد یا قوم کو، حق خود مختاری اور زمینی سالمیت کے بارے میں، چین کے عزم کو ہلکا نہیں لینا چاہیے۔واضح رہے کہ جاپان کے وزیر اعظم کیشیدہ اور امریکہ کے صدر بائیڈن نے آن لائن سربراہی اجلاس میں، مشرقی و جنوبی بحیرہ چین میں حیثیت کی تبدیلی سے متعلق، بیجنگ کے یک طرفہ اقدامات کے ساتھ ساتھ ہانگ کانگ کی صورتحال، سنکیانگ اوئیغور خودمختار علاقے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور آبنائے تائیوان میں امن و استحکام سے متعلقہ موضوعات پر بات چیت کی تھی۔اجلاس میں وزیر اعظم کیشیدہ اور صدر بائیڈن نے جاپان اور امریکہ کے درمیان اتحاد کو مضبوط بنانے پر اتفاق رائے کا اظہار کیا تھا۔یہ سب کچھ چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے ہے ۔اگر عمران خان کو چین کو منانا ہے تو اپنے امریکی ساتھیوں سے نجات پانا ہوگی ورنہ عمران خان چین کی نظر میں مشکوک رہیں گے ۔