جگر کا ٹرانسپلانٹ تحریر محمد اظہر حفیظ

کسی بھی چیز یا جسم کے حصے کو ایک انسان کے جسم سے نکال کر دوسرے انسان کے جسم میں لگانے کو ٹرانسپلانٹ کہتے ہیں۔
مختلف چیزوں کے ٹرانسپلانٹ عام ہیں جیسے بالوں کا ٹرانسپلانٹ ، گردےکا ٹرانسپلانٹ ، آنکھ کا ٹرانسپلانٹ ، اور جگر کا ٹرانسپلانٹ ۔
ان میں سب سے بڑی سرجری اور زیادہ وقت طلب جگر کے ٹرانسپلانٹ میں ہوتی ہے۔
سب سے پہلے مریض کے مختلف ٹیسٹ اور علامات سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ اس کے جگر کے حالات کیا ہیں۔ جگر کی جلد کیسی ہے کون کون سے کام جگر نہیں کر رھا اس کے نقصان دہ اثرات باقی جسم پر کیا آرہے ہیں۔
اور جگر کو مرض کیا لاحق ہے، کیا وہ ہیپاٹائٹس بی یا سی کاشکار ہے، کیا جگر کینسر زدہ ہوچکا ہے یا پھر جگر سکڑ گیا ہے اور اس کی جلد کی ساخت تبدیل ہو رہی ہے۔ تلی ہوئی اشیاء کا بے جا استعمال، شراب نوشی، سگریٹ نوشی اور شوگر بھی جگر کو خراب کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
ان میں سے کوئی ایک یا کوئی بھی اور وجہ جگر کے کام کرنے کے عمل کو متاثر کرتی ہے۔
جب یہ طے ہوجاتا ہے کہ جگر کا ٹرانسپلانٹ ضروری ہے تو سب سے پہلے آپ کے قریب ترین عزیزوں میں سے ڈونر تلاش کیا جاتا ہے جیسا کہ بہن بھائی، اولاد، بھانجے بھانجیاں، بھتیجے بھتیجیاں اور اس کے بعد مختلف ٹیسٹ شروع ہوتے ہیں۔
خون کے گروپ کا ایک ہونا یا کسی دوسرے گروپ کا مددگار گروپ ہونا، ڈونر کی صحت، جگر کا سائز، ہیپاٹائٹس بی یا سی کا منفی ہونا اور بہت سے ٹیسٹ اس کام میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
جب ڈونر فائنل ہوجاتا ہے تو پھر قانونی کاروائی شروع ہوتی ہے۔
اشٹام پیپرز پر دونوں فریقین کے بیانات، نادرا سے تعلق کی تصدیق، اور ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی سے منظوری۔
اس سلسلے میں تقریبا چار سے چھ لاکھ روپے خرچ ہوجاتے ہیں ۔ اور اس کو مریض اور ڈونر کی تحقیقات کا نام دیا جاتا ہے
تقریبا ہر ٹیسٹ کئی کئی دفعہ ہوتا ہے۔ کبھی متعلقہ ادارے سے اور کبھی پرائیویٹ لیبز سے۔
پھر بات پہنچتی ہے ٹرانسپلانٹ کی جس کی فیس 38 لاکھ سے شروع ہو کر 50 لاکھ تک جاتی ہے۔ اس سارے عمل میں ڈونر کا 60% سے 70% جگر نکالا جاتا ہے اور مریض کو لگایا جاتا ہے
کسی بھی صحت مند انسان کیلئے 28% جگر کا کام کرنا مناسب ہوتا ہے اور وہ باقی 70%تک جگر عطیہ کر سکتا ہے۔ چھ سے آٹھ ہفتوں میں جگر پھر مکمل ہوجاتا ہے اور ڈونر کی صحت پر ماسوائے وہ دوبارہ جگر عطیہ نہیں کرسکتا کوئی منفی اثر نہیں پڑتا۔
آٹھ ہفتوں کے بعد وہ دوبارہ اپنی نارمل لائف شروع کردیتا ہے جیسا کہ جگر عطیہ کرنے سے پہلے تھی۔ ڈونر کی سرجری 5 سے 6 گھنٹوں پر منحصر ہوتی ہے اور وہ آپریشن تھیٹر سے ہوش و حواس میں آئی سی یو میں منتقل ہوجاتا ہے ۔ وہ تین دن تک آئی سی یو میں رہتا ہے۔ ڈونر کے آپریشن شروع کرنے کے آدھے گھنٹے بعد مریض کا آپریشن بھی شروع کردیا جاتا ہے اور وہ تقریبا سات سے دس گھنٹے چلتا ہے ۔
مریض کو بے ہوشی کی حالت میں ہی آئی سی یو میں منتقل کیا جاتا ہے اور 24 گھنٹے بعد ہوش میں لایا جاتا ہے مریض آٹھ دن آئی سی یو میں رہتا ہے اور پھر کچھ دن کمرے میں رہ کر گھر منتقل ہوجاتا ہے۔ مریض کے مختلف ٹیسٹ بار بار کئے جاتے ہیں تاکہ انفیکشن سے بچایا جاسکے۔ اس عمل پر 9 سے 15 لاکھ تک خرچہ آتا ہے۔ کیونکہ ٹرانسپلانٹ کے بعد اسکی احتیاط بہت ضروری ہے ۔ جو اس عمل کو کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے۔ کیونکہ وہ پہلے سے بیمار ہے اور صحت مند ہونے میں اسکو تقریبا تین ماہ لگ جاتے ہیں اور وہ کچھ احتیاط اور دوائیوں کی مدد سے نارمل زندگی شروع کردیتا ہے جیسے ماسک پہننا، صاف ستھری جگہ پر رھنا، ہجوم میں جانے سے گریز کرنا۔ کھانے پینے میں احتیاط اور ساری زندگی ایک دوائی کھانا کہ جسم آپ کے نئے حصے پر حملہ آور ہوکر اس کو ریجیکٹ نہ کردے۔
اس سارے عمل میں شروع سے لیکر ٹرانسپلانٹ ہونے تک چار سے چھ ماہ لگ جاتے ہیں ۔ اور 70 لاکھ سے ایک کروڑ تک خرچہ آجاتا ہے ۔ جوکہ ہسپتال پر منحصر ہے کہ آپ ٹرانسپلانٹ کہاں سے کروا رہے ہیں۔
اس میں ایک ادارہ فری ٹرانسپلانٹ بھی کرتا ہے جو کہ گمبٹ میں حکومت سندھ کے زیرنگرانی کام کرتا ہے وہاں بھی آپکے دس سے بیس لاکھ روپے خرچ ہوجاتے ہیں ۔ پاکستان کڈنی لیور انسٹیٹیوٹ اینڈ ریسرچ سینٹر لاہور بھی سال میں کچھ ٹرانسپلانٹ فری کرتا ہے ۔
میں خود بھی یہیں سے جگر ٹرانسپلانٹ کے عمل سے کل 10 جنوری 2022 کو گزروں گا۔
اس سلسلے میں میرے ادارے پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن نے 51 لاکھ روپے کی خطیر رقم کی ادائیگی پاکستان کڈنی لیور انسٹیٹیوٹ اینڈ ریسرچ سینٹر لاہورکو کی ہے ۔ انکا بے حد شکریہ۔
مجھے ابھی تک یہ ادارہ بہترین نظر آیا ہے کیونکہ ان تمام معاملات کے متعلق اگاہی بھی مجھے یہاں کے ڈاکٹرز اور سٹاف نے مہیا کی ہے۔ ڈاکٹر فیصل سعود ڈار اور انکی ٹیم اس سارے عمل کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے انتھک محنت کرتے ہیں۔ ہر شعبہ بہترین لوگوں پر مشتمل ہے ، ڈاکٹر سید نجم الحسن شاہ صاحب کا شکریہ جو ڈائریکٹر میڈیکل اور انتہائی شفیق انسان اور بھائی ہیں۔ ہسپتال کا سارا عملہ بہت فرض شناس ہے، کرنل افضل اور انکی ٹیم ڈاکٹر احسان اور انکی ٹیم، ڈاکٹر رابعہ اور انکی ٹیم ڈاکٹر جویریہ اور انکی ٹیم، اے ڈی صاحب اور انکی فوڈ اینڈ ڈائٹیشن کی ٹیم، شہناز صاحب اور انکی اکاونٹس کی ٹیم، پتھیالوجی اور نیوکلیئر میڈیسن کی ٹیم۔ انفیکشن کنٹرول ٹیم۔ فزیوتھراپی اور اس کی ٹیم، ایڈمینسٹریشن اور انکی ٹیم ، ھاوس کیپنگ اور انکی ٹیم۔
سب لوگ قابل ستائش ہیں۔ یہاں سب دن ہی ورکنگ دن ہیں چھٹی والے دن بھی عملہ آن کال آتا ہے اور مسکراتا ہوا ملتا ہے۔ شکریہ ڈاکٹر فیصل سعود ڈار اتنے سارے نگینے اور ہیرے ایک چھت تلے جمع کرنے کا۔
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ کوالٹی ورک انفرادی کام ہوتا ہے نہ کہ اجتماعی کام۔ جب ہر کوئی اپنا کام صحیح طور پر انجام دیتا ہے تو کوالٹی کا کام سامنے آتا ہے اگر آپ کوالٹی ورک دیکھنا چاھتے ہیں تو ضرور پاکستان کڈنی لیور انسٹیٹیوٹ اینڈ ریسرچ سینٹر لاہور کو وزٹ کیجئے۔ بیماری تو انکے اخلاق سے ہی ختم ہو جاتی ہے، باقی شفاء منجانب الله ہے۔